صدیوں کے جال اور نیا سال 

دو ہزار بیس دنیا کو بہت سے سبق دے کر گیا ہے۔ کورونا وبا نے اس وقت  دنیا پر غالب نظام سرمایہ دارانہ نظام کی بوسیدگی اور لاچارگی ظاہر کر دی ہے۔ سرمائے کی بنیاد پر لامحدود دولت کے انفرادی حصول کی بنیاد پر ریاست سے بڑے افراد اور کمپنیز نے پوری دنیا کے نظام کو مفلوج اور انسانوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ وبا کے خلاف ریاستوں کی بجائے افراد کی رائے زیادہ اہم اور مستند سمجھی گئی۔ جیسا کہ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کی رائے۔  جنگوں کے بعد اب ویکسین کے نام پر ریاستوں کی معیشتوں کو گروی رکھنے کا نیا سلسلہ شروع ہونے جارہا ہے۔ پچھلی ایک صدی سے کیپٹل ازم اپنی پوری قوت سے برسرپیکار ہے۔ اگر پوری انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں توسب سے زیادہ انسانی قتل بیسویں صدی میں ہوئے۔ یورپی سامراجی اقوام نے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں کالونیل نظام کے تحت دنیا کی دیگر اقوام کو غلام بنا کر اتنا نہیں لوٹا جتنا امریکی نیو کالونیل نظام نے آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک ، ملٹی نیشنل کمپنیوں ، این جی اوز اور غلام حکمرانوں کے ذریعے لوٹا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانوی سامراج نے دو سو برس کے عرصہ میں متحدہ ہندوستان سے 45 ٹریلین کی دولت لوٹی تھی۔ صرف پاکستان سے 73 برس کے عرصے میں سرمایہ دارانہ نظام کے گماشتہ ادارے اورملٹی نیشنل کمپنیاں دگنی رقم لوٹ چکے ہیں۔ جنگیں ، بھوک ، غربت اور بیماریاں مسلط کرنے کی پالیسیوں نے دنیا کی دو تہائی آبادی کا مستقبل غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ تیسری دنیا کی پسماندگی اورغربت کے ذمہ دار مقامی حکمران طبقات بھی ہیں جنھوں نے اپنے معمولی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی۔ ایشیا کے چند ممالک کو چھوڑ کراور پورا افریقہ جنگ اور قحط سالی کا منظر پیش کرتا ہے۔انھی خطوں میں جانوروں کے حقوق کی آڑ میں سرگرم یورپی اور امریکی تنظیمیں بھوک سے نڈھال اور علم و امن کی روشنی سے محروم انسانوں کو دیکھنے سے عاری ہیں۔ کیونکہ ان کے ریاستی مفادات ا?ڑے آجاتے ہیں۔تعلیمی اعتبار سے پاکستان کا شمار دنیا کی بدقسمت قوموں میں ہوتا ہے۔ جہاں خواندگی کی شرح صرف 58 فیصد ہے۔ یعنی یہاں آج بھی 8 کروڑ سے زائد لوگ زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ تعلیم کی یہ شرح جنوبی ایشیا کے ممالک بنگلہ دیشں اور نیپال سے بھی کم ہے۔ یہ تو صرف ایک شعبے کی مثال ہے۔ صنعت ، زراعت ، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبہ زندگی زبوں حالی کا شکار ہے۔ تین دہائیاں مارشل لائ￿  اور تقریباً چار دہائیوں سے زائد جمہوری ادوار پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ البتہ ان ادوار نے ایک ایسی کلاس کو جنم دیا ہے جن کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔ لیکن بطور حکمران وہ اس بات پر مصر ہیں کہ ان سے اس بابت بالکل نہ پوچھا جائے۔ ذہنی طور پر ان ٹچ ایبل گروہ نے ایک تماشا برپا کر رکھا ہے۔ آئین و قوانین کی تشکیل اس غرض سے کی جاتی ہے کہ ہر اٹھنے والی آواز کو دبایا جا سکے۔ جب خود کبھی انھی قوانین کا سامنا کرنا پڑ جائے تو اسے سیاسی انتقام قرار دیا جاتا ہے۔ ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے خواجہ آصف کی گرفتاری پر سوال کیا ہے کہ یہ آمدن سے زائد اثاثے کیا ہوتے ہیں؟ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ احتسابی قوانین میں آمدن سے زائد اثاثوں کی شق 1997 میں شامل کی گئی تھی جب وہ وزیر اعظم تھے۔ اس شق کے تحت کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر اگر اپنی آمدن سے زائد اثاثوں کا معقول جواب نہ دے سکے تو اس قانون کی زد میں آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زد میں آیا ہر شخص  پہلے دوسروں کے احتساب کا متمنی ہے۔موجودہ حکومت کلی احتساب کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت میں شامل افراد نیب کے ریڈار میں نہیں آتے اور اگرآئیں بھی تو کلین چٹ یا مہلت مل جاتی ہے۔ اس بڑا مدعا یہ ہے کہ نیب منی لانڈرنگ ، فیک اکاؤنٹس اور آمدن سے زائد اثاثوں کی بنا پر کسی کو سزا نہیں دلوا سکی۔ جس سے پولیٹکل انجینئرنگ  کے تاثر کو تقویت مل رہی ہے۔اسی لئے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد "جزوی احتسابی عمل" کو جواز بنا کر اسے انتقامی کارروائی قرار دے رہا ہے۔ ذاتی مفادات کی لڑائی عوام کی محرومیوں کے عنوان سے لڑنے کی کو شش کی جارہی ہے۔ لیکن موجودہ اور سابقہ حکمرانوں میں ایک چیز کامن ہے" عالمی سرمایہ دار طاقتوں سے گٹھ جوڑ"۔ عالمی ساہوکاری نظام کی نگرانی میں بنائی جانے والی پالیسیوں کے نتیجے میں ہر آنے والا دن پاکستان کے عوام پر مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ وزارت خزانہ پر آئی ایم ایف یا اس کے ذیلی اداروں کے پیدا کردہ افراد کا کنٹرول اس کی سب سے بڑی گواہی ہے۔ اس ملک کو حقیقی معنوں میں قومی بنیادوں پر ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اس میں بسنے والوں کو سیاسی اور معاشی مساوات فراہم کر سکے۔ وسائل مخصوص طبقات سے نکل کرعام آدمی کی دسترس میں آسکیں۔ ورنہ سرمائے کے بل بوتے پر قابض اشرافیہ قوم کا خون یونہی چوستی رہے گی۔ صدیوں کے جال میں پھنسا یہ نیا سال بھی کچھ نہیں بدل سکے گا۔  

ملک عاصم ڈوگر  …منقلب 

ای پیپر دی نیشن