خواجہ سعد رفیق، علی جہانگیر بدر اور حافظ نعیم الرحمن!!!!!

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاست دان پتھر دل ہوتے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں یہ محاورہ عین سچ ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے ہر دور میں ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے، عوامی سیاست کے نام پر مال اکٹھا کیا ہے۔ عوام کو چھوٹے موٹے ترقیاتی منصوبوں کے پر خوش کر کے خود کروڑوں اربوں بنائے ہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد، طرز زندگی، گاڑیاں، بنگلے، زمینیں، فیکٹریاں لگائیں، سرکاری اداروں کو کمزور و ناکام بنا کر پرائیویٹ اداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع دے کر پیسے بنائے، حکمرانوں کے کاروبار پھلتے پھولتے رہے اور سرکاری ادارے کمزور ہوتے گئے۔ گذشتہ تیس برسوں میں ہر بڑا سرکاری ادارہ خسارے اور تباہی کی داستان بنا نظر آتا ہے لیکن اسی عرصے میں حکمران طبقے اور ان سے تعلق رکھنے والوں کے کاروبار ترقی کرتے رہے ہیں۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا تاریک پہلو ہے۔ اسی پہلو سے جڑا ایک واقعہ آج قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ واقعہ پڑھ کر آپکو اندازہ ہو گا کہ آغاز سیاست کیسا ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ کیسے بدل جاتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق کے نام سے آپ سب واقف ہوں گے۔ آپ کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے بھرپور سیاسی کیرئیر ہے۔ مسلم لیگ نون کے آخری دور حکومت میں وزیر ریلوے رہے۔ یہاں انہوں نے اچھا کام کیا بعد میں یقیناً شیخ رشید ناکام وزیر ریلوئے ثابت ہوئے یہی وجہ ہے کہ ٹرین پر سفر کرنے والے آج خواجہ سعد رفیق کو یاد کرتے ہیں۔ میں بھی خواجہ سعد رفیق کا احترام کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ وہ حقیقی سیاسی کارکن ہیں۔ وہ ایسے سیاست دان ہیں جو نچلی سطح سے شروع ہو کر قومی اسمبلی تک پہنچے۔ قومی اسمبلی تک جانے کا یہی سب سے بہتر طریقہ ہے۔ وہ نچلی سطح پر جماعت کو منظم کرنے، کارکنان کو متحرک کرنے اور انہیں گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ عوام میں رہتے ہیں یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ خواجہ سعد رفیق پر مختلف کیسز بھی رہے ہیں ان کیسز میں کتنی سچائی ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن جو واقعہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں یہ ان کی والدہ کی اپنے بیٹے سے محبت اور اسے سیدھے راستے پر قائم رکھنے کی ایک ایسی کوشش ہے جو صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔ سعد رفیق کسی دور میں اپوزیشن کی احتجاجی تحریک میں گرفتار ہوئے۔ ان کے ساتھ نون لیگ کے دیگر سیاسی رہنما بھی گرفتار ہوئے تو ایک مرتبہ ان کی والدہ عدالت پیشی پر پیارے بیٹے کے لیے کھانا لے کر پہنچ گئیں۔ وہاں موجود لوگوں نے پوچھا۔ آپا جی خیریت سے آئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ سعد کے لیے کھانا لے کر آئی ہوں، لوگوں نے کہا سعد تو سیاسی قیدی ہے۔ کھانے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سعد رفیق کی والدہ کا جواب تاریخی تھا اور یہ جواب سیاست دانوں کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ سعد رفیق کی عظیم والدہ کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ وہ ہر وقت حلال کھائے۔ یہ جذبہ، لگن اور محبت ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔ ان کی والدہ کی اس سوچ اور ان کی خواہش پر لکھتے رہنے کا دل کرتا ہے۔ انہیں اس وقت بھی یہ دھڑکا تھا کہ کہیں بیٹا بھٹک نہ جائے، کہیں بیٹا کچھ ایسا کھانا پینا شروع نہ کر دے جس کی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ سعد رفیق کی والدہ کو یہ فکر کیوں تھی۔ آج فیصلہ خواجہ سعد رفیق نے کرنا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی اس سوچ پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں۔ وہ اپنی والدہ کے ان الفاظ کی کس حد تک قدر کرتے ہیں، کس حد تک اس پر قائم رہتے ہیں۔ میں ان کی سیاسی جدوجہد سیاسی سوچ اور طرز سیاست کا قائل ہوں۔ ووٹرز سے رابطہ رکھنے اور ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لینا ہی کسی سیاسی کارکن کا اثاثہ ہے۔ اس معاملے میں خواجہ سعد رفیق پیچھے نہیں رہتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر پنجاب اور بالخصوص لاہور میں جماعت کا نمایاں چہرہ تھے۔ لاہور کی روایتی سیاست میں جہانگیر بدر منفرد مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے مشکل وقت میں بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جماعت سے ان کی وابستگی شک و شبہ سے بالاتر رہی۔ آج ویسے بھی صرف پنجاب ہی نہیں لاہور میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی نظر نہیں آتی۔ جہانگیر بدر ہوتے تھے تو کم از کم جیالے متحرک رہتے تھے، جیالے نظر آتے تھے، اپنی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔ لاہور میں جیالوں کی سیاست جہانگیر بدر کے ساتھ ہی رخصت ہوئی ہے۔ اگر بلاول بھٹو زرداری یہ چاہتے ہیں کہ لاہور میں دوبارہ پیپلز پارٹی اپنی جگہ بنائے تو اس کے لیے انہیں جہانگیر بدر فلیور کی اشد ضرورت ہے۔ جہانگیر بدر کی عدم موجودگی میں ان کے ان کے بیٹے علی جہانگیر بدر یہ کمی پوری کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ علی جہانگیر کی سیاسی تربیت گھر سے ہوئی ہے وہ لاہور میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی و دیرینہ کارکنوں کو منظم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اپنے والد جہانگیر بدر کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ غیر مشروط وابستگی اور کارکنوں کے ساتھ قائم محبت کے رشتے کو نئی نسل میں منتقل کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو انہیں لاہور سے اس کام کے لیے میدان میں اتارنا چاہیے۔ علی جہانگیر بدر کو بھی عوامی سیاست کی طرف آنا چاہیے۔ سینیٹ میں جانے کے خواب دیکھنے کے بجائے اپنے والد کی طرح عوامی سیاست پر توجہ دینی چاہیے۔ فکری گفتگو اور رائے عامہ بنانے کے پہلو پر کام کرنے کے ساتھ انہیں اپنی جماعت کو نچلی سطح پر منظم کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ یہ کام کر سکتے ہیں، ان میں صلاحیت بھی موجود ہے۔ اگر وہ یہ احساس کریں کہ ان کی سیاسی زندگی عام آدمی سے جڑی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی علی جہانگیر جیسے نظریاتی کارکنوں کی ضرورت ہے۔
لاہور میں پیپلز پارٹی نظر نہیں آتی تو کراچی سے جماعت اسلامی سکڑتی جا رہی ہے۔ ویسے جماعت اسلامی کو ملک بھر میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے اور بالخصوص کراچی میں عوامی رابطہ مہم شروع کرنیکی ضرورت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی سراج الحق سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ یہ تاثر جماعت کے مستقبل کے لیے ہرگز اچھا نہیں ہے۔ حالانکہ ماضی میں جماعت اسلامی ایک مضبوط سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی بالخصوص مزاحمتی سیاست میں انہیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے شہر قائد کی ترقی میں جماعت اسلامی کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ ناظم کراچی نعمت اللہ خان کے دور کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں بھی جماعت اسلامی ہر گذرتے دن کے ساتھ محدود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمٰن کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو سارا کام صرف حافظ نعیم الرحمن کرتے ہیں یا پھر صرف وہی ہیں جو کراچی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کے لیے موجود ہیں۔ موجودہ دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر جماعت اسلامی کو بھی کام کرنے کے انداز پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ کراچی میں اپنا سیاسی کردار بڑھانے کے لیے نئے جوش و جذبے کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ جماعت اسلامی کا تمام صوبوں میں مضبوط ہونا ملکی سیاست کے لیے اہم ہے۔ جماعت کے لوگوں کی کوششوں پر تو کوئی شک نہیں لیکن ان کی محدود ہوتی سرگرمیاں اور عوامی مقبولیت بہرحال تشویشناک ہے۔ جماعت اسلامی کے اکابرین خود دیکھیں کہ کیا آج جماعت کی طاقت وہی ہے جو انیس سو اسی نوے یا دو ہزار میں ہوا کرتی تھی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...