لاہور (نیوز رپورٹر) جاتی امرا میں پی ڈی ایم کا اجلاس مولانا فضل الرحمن کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں لانگ مارچ اور استعفوں کے معاملے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں سینٹ اور ضمنی انتخابات کے حوالے سے بھی مشاورت کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مریم نواز‘ احسن اقبال‘ ایاز صادق‘ محمد زبیر اور امیر مقام نے شرکت کی۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو زرداری‘ نوازشریف اور آصف زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ ناجائز حکومت کو گھر بھیج کر رہیںگے۔ محمود خان اچکزئی، امیر حیدر خان ہوتی، میاں افتخار حسین، سردار اختر جان مینگل، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، اویس احمد نورانی اور دیگر رہنما بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔ پی ڈی ایم نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن کے سربراہی اجلاس کے بعد مریم نواز و دیگر رہنماؤں کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ سینٹ انتخابات سے متعلق فیصلہ بعد میں کریں گے۔ پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ ہم متحد ہیں۔ سب کے استعفے پارٹی قیادت تک پہنچ چکے ہیں۔ میڈیا پر پی ڈی ایم کے اختلافات کی خبریں چلائی جاتی ہیں۔ اختلافات کی خبریں دم توڑ چکی ہیں۔ حکومت کو مستعفی ہونے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دے رہے ہیں۔ حکومت سے نجات کیلئے پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ پرعزم ہے۔ حکومت کے پاس ایک ماہ کی مدت ہے۔ تمام اراکین کے استعفے پارٹی قیادت کو پہنچ چکے ہیں۔ ایک ہدف حاصل ہو چکا ہے۔ محمد علی درانی نے کہا آصف زرداری اور نواز شریف کی سوچ میں ہم آہنگی ہے۔ شہباز شریف نے درانی صاحب کو کہا میں جیل میں رہ کر کیا کر سکتا ہوں جو پی ڈی ایم کا بیانیہ ہے وہ میرا بھی ہے۔ جیل میں کوئی شخص حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں مل سکتا۔ جب محسوس ہو گا استعفوں سے یہ عمارت گر سکتی ہے تو استعفوں کی اینٹ نکال دیں گے۔ عمران خان نے اپنی ناکامی کے سائے قومی اداروں پر ڈال کر ان کا امیج خراب کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ڈی ایم کی قیادت لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرے گی۔ پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے یا راولپنڈی کی طرف کیا جائے۔ خواجہ آصف کی گرفتاری نظرانداز نہیں کر سکتے۔ نیب کا ادارہ صرف حزب اختلاف کے خلاف بنایا گیا ہے۔ ایک ماہ بعد استعفوں اور لانگ مارچ کی حکمت عملی طے کریں گے۔ ہم غور کر رہے ہیں باقاعدہ جیلوں کا رخ کریں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ الیکشن کمشن کے سامنے مظاہرہ ہو گا۔ نیب دفاتر کے سامنے بھی مظاہرے کئے جائیں گے۔ محمد علی درانی بغیر پروگرام کے آئے تھے۔ انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کا فلسفہ بیان کیا۔ میں نے کہا مذاکرات خارج از امکان ہیں، بات ختم ہو گئی۔ حکومت کے پاس ایک ماہ کی مدت ہے۔ عمران خان ایک مہرہ ہے۔ ہماری تنقید کا رخ اب ہر طرف ہو گا۔ سیاستدانوں کو نوٹس دینے سے متعلق بھی کچھ فیصلے کریں گے۔ تمام جماعتیں متفق ہیں ہم نے تحریک کا رخ صرف ایک مہرے کی طرف نہیں موڑنا۔ ثابت ہو گیا کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔ حکومت کو مستعفی ہونے کیلئے 31 جنوری تک کیلئے مہلت ہے۔ 31 جنوری کے بعد پی ڈی ایم کا اجلاس ہو گا جس میں لانگ مارچ کا فیصلہ کریں گے۔ نیب اپوزیشن کے خلاف ایک مہرے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ 20 ستمبر کو جو ڈیکلریشن سائن کیا تھا اسی پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ پی پی کے تحفظات نہیں تھے۔ انہوں نے صورتحال کی قانونی اور آئینی پوزیشن کو واضح کیا اور اپنی تجاویز سامنے رکھی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے ضمنی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ سینٹ الیکشن کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ ضمنی الیکشن میں جعلی حکومت کیلئے کوئی بھی راستہ خالی نہیں چھوڑیں گے۔ ضمنی الیکشن میں ہمارا مشترکہ امیدوار بھی سامنے آ سکتا ہے۔ اس پر ابھی بات نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام استعفے میرے پاس آ چکے ہیں۔ رابطوں کی کوشش اب بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن)‘ پی پی یا کسی جماعت نے سینٹ الیکشن پر فیصلہ نہیں کیا۔ جب وقت قریب آئے گا تو فیصلہ کریں گے۔ پی ڈی ایم میں اگر سب کا اتفاق ہوا تو سینٹ الیکشن لڑیں گے اگر نہ ہوا تو نہیں لڑیں گے۔ ایک سوال پر کہا کہ لانگ مارچ کیلئے موسم اور اپنے کارکنوں کو بھی دیکھنا ہے۔ حکومت کو گھر بھیجنا عوام کا کام ہے۔ میاں صاحب نے کہا تھا یہ جو سوغات پاکستان کو دی ہے اس کو واپس لے جاؤ۔ رہنما مسلم لیگ (ن) احسن اقبال نے کہا کہ ہماری جدوجہد عمران خان کو ہٹانے کی نہیں پاکستان کو آئین کے مطابق کھڑا کرنے کیلئے ہے۔ عمران خان فارن فنڈنگ کیس میں این آر او پر چل رہے ہیں۔ ہم اداروں پر دباؤ نہیں ڈال رہے۔ نیب کا کیلنڈر پی ڈی ایم کے سیاسی کیلنڈر سے مل کر چلتا ہے۔