اپوزیشن کرپٹ ، ہر رگ سے واقف، تحریک نہیں چلا سکتی: عمران

Jan 02, 2021

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میرے  اور فوج کے خلاف ایک بڑی سازش ہو رہی  ہے۔  پی ڈی ایم اس سازش کا حصہ ہے۔ انہوں  نے اپوزیشن کو  چیلنج کیا ہے کہ وہ ثبوت دے  کہ فوج کیسے ہماری حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ حیرت ہو رہی ہے کہ یہ کیا چاہتے ہیں کہ فوج کیا کرے؟۔ یہ بہانہ  کبھی نہیں کیا  کہ ہم نے تیاری نہیں  کر رکھی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت میں آنے سے پہلے پریذنٹیشن مل جائے تو آپ آکر کام شروع کر دیں گے۔ گلگت بلتستان میں حکومت کو آئے 2 ماہ ہوگئے لیکن ابھی تک انہیں پریزنٹیشن دی جارہی ہے، جبکہ جو بائیڈن امریکی نائب صدر رہ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں اب بھی پریذنٹیشن دی جارہی ہے۔ میری زندگی کے مشکل دو سال گزرے، اب پاکستان کا اچھا وقت آرہا ہے اور 5 سال بعد لوگ میری کارکردگی سے متعلق فیصلہ کریں گے۔ پاکستان کی فوج ہماری فوج ہے، فوج کو پتا ہے کہ عمران خان پیسے چوری کر کے پراپرٹی نہیں بنارہا۔ عمران خان کاروبار کر رہا ہے اور  نہ ہی  فیکٹری بنا رہا ہے۔ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ ان پر دباؤ آتا ہے تو یہ باہر بھاگ جاتے ہیں۔ اپوزیشن پھنس گئی ہے۔ ایسا وزیراعظم آگیا ہے جو این آر او نہیں دے رہا۔ انہوں نے یہ بات جمعہ کو نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئی کہی۔  انہوں نے کہا کہ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جسے پتہ نہ ہو کہ ملک کے کیا مسائل ہیں۔ گھر پر قرض اس لئے چڑھتا ہے کہ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں، خرچے کم کرتے ہیں تو گھر میں تکلیف ہوتی ہے۔ ہماری حکومت آئی تو تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، بجلی میں 400 ارب روپے اس خسارے کا بھی پتا چلا جو رکارڈ میں ہی نہ تھا لیکن 17 سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ پانچ ماہ سے مثبت ہے۔ ہم مارکیٹ میں روپے کو روکنے کے لیے ڈالر نہیں پھینک رہے'۔وزیراعظم نے کہا کہ میں نے کہا تھا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے مل کر حکومت بنانا پڑی تو اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں سے تعلقات اچھے ہیں، ایم کیو ایم کے نظریات ہم سے ملتے جلتے ہیں جبکہ میری لڑائی دہشت گرد بانی متحدہ کے خلاف تھی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب  میں کہا کہ ہماری حکومت آئی تو کہا گیا کہ حکومت ایک ماہ میں گئی، دو ماہ میں گئی، کرونا آیا تو اپوزیشن نے خوشیاں منائیں اور واویلا کرتی رہی کہ حکومت آج گئی کل گئی، شہباز شریف لندن سے آکر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ گئے اور کرونا آیا تو شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ شہباز شریف سے پوچھیں کیونکہ انہوں نے ڈینگی کنٹرول کیا۔ اپنے بیانات سے یوٹرن لینے سے متعلق عمران خان نے کہا کہ یوٹرن تب برا ہوتا ہے جب نظریے پر سمجھوتہ ہو، اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے نظریے پر سمجھوتہ ہے، اپنی منزل پانے کے لئے کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے لیکن این آر او پر کبھی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔انہوں نے کہا کہ3 مرتبہ کے وزیر اعظم کے بیٹوں کی اربوں روپے کی پراپرٹی ہے، میرے کسی وزیر پر کرپشن کا الزام ثابت ہوجائے تو کارروائی کروں گا، وزیراعظم اور وزیر کرپشن کریں تو ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔ اقتدار میں بیٹھ کر کرپشن کرنے والوں کو عام لوگوں کی طرح سزا نہیں ملنی چاہیے انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار شوگر مافیا کے خلاف کارروائی ہوئی، شوگر مافیا میں سب سے پہلے شریف خاندان آیا، نواز شریف، آصف زرداری اور وزیروں نے شوگر ملیں بنالیں جبکہ چینی کاغذ پر برآمد ہوتی تھی وزیر اعظم نے  مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری سے متعلق کہا کہ خواجہ آصف کو دبئی سے کیش کی صورت میں رقم آرہی تھی، میں نے کابینہ میں کہا کہ خواجہ آصف کے خلاف تحقیقات کرو، ہمیں پتا تھا کہ اقامہ منی لانڈرنگ کا طریقہ ہینیب کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نیب میں ان کے خلاف 95 فیصد کیسز ہم نے نہیں بنائے، کیا میرے کہنے پر نیب نے عبدالعلیم خان اور سبطین کو بھی جیل میں ڈالا؟ اب یہ دونوں مجھے کہیں کہ نواز شریف دور میں تو نیب نے نہیں پکڑا اب گرفتار ہوگئے، ہم نیب میں دخل اندازی کرتے ہیں اور نہ ہی جج کو فون کرتے ہیں انہوں  نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اپوزیشن والے سب اکٹھے ہوں گے اور جمہوریت کا نام استعمال کریں گے۔ اپوزیشن کی ہر رگ سے واقف ہوں کرپٹ اپوزیشن تحریک نہیں چلا سکتی۔ یہ اقتدار سے پہلے کیا تھے اب ارب پتی بن چکے ہیں، ان کی سیاست یہ ہے کہ اقتدار میں آکر مال بناؤ ، یہ سب چاہتے ہیں ان کے کرپشن کیسز ختم کردوں جس کے لیے مجھے بلیک میل کرتے ہیں، لیکن یہ جو مرضی کریں، جتنے مرضی جلسے کریں میں این آر او نہیں دوں گا۔ بھارت میرے خلاف جو پروپیگنڈا کر رہا ہے وہی اپوزیشن کر رہی ہے، اگر میں کٹھ پتلی ہوں تو بتائیں اپنے منشور سے کون سا کام الگ کر رہا ہوں۔ حکومت اداروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ کس جمہوریت میں آرمی چیف کو کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹائیں۔ نواز شریف نے ادارے پر تنقید کی۔ دھاندلی کا ثبوت نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا  کہ اپوزیشن مجھے کٹھ پتلی کہتی ہے۔ منتخب وزیراعظم ہوں عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن مجھے کٹھ پتلی بھی کہتی ہے اور فاشسٹ بھی، اپوزیشن فیصلہ کر لے کہ میں کٹھ پتلی ہوں یا فاشسٹ؟  فوج ہر اس وزیراعظم کا ساتھ دے گی جو ملک کیلئے کام کرے گا۔ مسلم لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کیخلاف منشیات کیس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نہیں اے این ایف نے یہ کیس بنایا۔ کابینہ اجلاس میں ڈی جی اے این ایف سے پوچھا کیس میرٹ پر ہے۔ مجھے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی علم تھا کہ سابق حکمران اپنے دور اقتدار میں پاکستان کیساتھ کیا کر رہے ہیں۔ ساٹھ سال کی تاریخ میں پاکستان کا ٹوٹل قرضہ 6 ہزار ارب تھا لیکن صرف دس سالوں میں اسے 30 ہزار ارب تک پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے ملک کے سارے ادارے بینک کرپٹ کر دیئے۔ میرے کہنے کا مطب یہ تھا کہ اگر حکومت میں آنے سے پہلے پریذینٹیشن مل جائے تو اقتدار سنبھالتے ہی کام شروع کر دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں جس مقصد پر چل رہا ہوں اس کیلئے اپنی ٹیم میں آئندہ بھی تبدیلیاں کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے یہ میچ جیتنا ہے۔ میں چیف جسٹس سے کہوں گا کہ اگر میرے کسی بھی وزیر کیخلاف کرپشن کے الزام لگیں اس پر کیس بنا کر روازنہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے۔ اپوزیشن کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہو سکتا۔پی ٹٰی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی ہماری پارٹی کے اندر پوزیشن تھی۔ جب انھیں نااہل قرار دیا گیا تو آفشیلی طور پر ان کی پوزیشن ختم ہو گئی۔ ہماری حکومت میں ان کا رول صرف ایڈوائزی کا تھا، کیونکہ وہ ماڈرن زراعت کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کیخلاف جیسے ہی انکوائری شروع ہوئی ہم نے ان کو تمام ذمہ داریوں سے ہٹا دیا۔ ان کیخلاف انکوائری میرٹ پر ہو رہی ہے۔  اپوزیشن کبھی عوامی تحریک نہیں چلا سکتی۔ عوام تب نکلتے ہیں جب ان کے مسائل کیلئے تحریک چلائی جائے۔ اپوزیشن اپنی کرپشن بچانے کیلئے سڑکوں پر نکل رہی ہے۔ جانتا تھا کہ لاہور والے ان کی چوری بچانے کیلئے نہیں نکلیں گے۔ یورپی یونین لیب نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان اور پاکستانی فوج کے خلاف بہت بڑی سازش ہورہی ہے میرا کام ہے اپنی فوج کی حفاظت کرنا، اپوزیشن ثبوت دے کہ کس طرح فوج مجھے بیک کررہی ہے ، فوج صرف کووِڈ، سیلاب اور ٹڈی دل میں سپورٹ کررہی ہے۔ عمران خان نے کہا  نیب کی 34 مجوزہ ترامیم ایسی تھیں کہ ہر ترمیم سے کسی نہ کسی اپوزیشن رہنما کی بچت ہورہی تھی، اگر میری نیب سے انڈر سٹینڈنگ ہوتی تو دو سال انتظار نہ کرتا، چھ ماہ میں سب کو جیل میں ڈال دیتا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان  نے کہا  ہے کہ اگر پاکستان کسی ملک سے سیکھ سکتا ہے تو وہ چین ہے، کیوں کہ ان کا ترقی کا ماڈل ہمیں سب سے زیادہ بہتر رہے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور گلگت بلتستان میں رواں سال کے آخر میں یونیورسل صحت کوریج فراہم کردیں گے۔'احساس پروگرام کے ذریعے ایک اور پروگرام متعارف کرا رہا ہوں  جس کے تحت ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔ اسلام آباد میں گاڑیاں متعارف کروانے کی تقریب سے خطاب کرتے انہوں   نے کہا  کہ ہم چاہتے ہیں کہ چینی صنعتیں ہمارے خصوصی اقتصادی زونز میں ری لوکیٹ کریں، ویتنام میں چینی انڈسٹری نے ری لوکیٹ کیا اور وہ ان کی برآمدات کا بہت بڑا حصہ بن چکا ہے۔ معیشت میں استحکام لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم سے امیر ممالک میں بھی لوگوں کی کھانا لینے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ہم نے 2 سال میں جو تجربہ کیا اب ہم ہر قسم کے چیلنجز کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2021 ترقی کا سال ہوگا، ہماری صنعتیں چل پڑی ہیں سیمنٹ کی صنعت اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں نمو دیکھی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا ترک  سفیر احسان مصطفی یرداکول، معاونِ خصوصی  ڈاکٹر ثانیہ نشتر، ایم ڈی بیت المال کے ہمراہ  پناہ گاہ کا دورہ، ترنول میں 100بستروں پر مشتمل پناہ گاہ کا افتتاح کیا، 2021کی پہلی شام  پناہ گاہ میں غریب اور مستحق افراد کے ساتھ گزاری۔ وزیراعظم نے پناہ گاہ میں موجود ای زی شفاء کی طرف سے ٹیلی ہیلتھ کائیوسک کا بھی دورہ کیا۔ اس موقع پر وزیرِاعظم نے پناہ گاہ کی رہائش کا دورہ بھی کیا اور مستحقین کے ساتھ کھانا بھی کھایا۔ مزید براں ایک ٹویٹ میں وزیراعظم  عمران خان نے کہا ہے کہ 2020 کورونا کے باعث مشکل سال تھا، لوگوں کو اپنی پالیسیوں کے ذریعے بھوک سے بچایا، پاکستان صحیح سمت میں ترقی کر رہا ہے، حکومت کا مقصد ملک کو فلاحی ریاست بنانا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت 2021  میں نئے پروگرام کا آغاز کرے گی، یہ 2  منصوبے 2021 کے اختتام تک مکمل ہوں گے۔وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسداد سمگلنگ اقدامات پر بھی اعلیٰ سطح اجلاس ہوا۔ وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر اطلاعات شبلی فراز، مشیر تجارت عبدالرزاق داود، معاون خصوصی شہزاد اکبر، معاون خصوصی برائے محصولات ڈاکٹر وقار مسعود خان، کامرس، پیٹرولیم، بحری امور اور داخلہ ڈویژن کے سیکرٹری صاحبان، چیئرمین ایف بی آر اور اعلیٰ سول و عسکری حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ سمگلڈ تیل کی فروخت کی وجہ سے معیشت کو 100 سے 150 ارب روپے سالانہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سمگلنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ انسداد سمگلنگ اقدامات سے محصولات میں اضافہ ہوگا جو کہ غریب عوام کی فلاح پر خرچ ہو سکے گا۔

مزیدخبریں