پرانے مسائل، نیا سال، نئی امیدیں اور رکاوٹیں!!!! 

نیا سال، نئی امیدیں، نئے خواب، نیا عزم اور نئے امتحان کا سال ہو گا۔ دو ہزار اکیس پاکستان کے لیے مایوسی، ناامیدی اور ناکامی کا سال رہا۔ عام آدمی خوار ہوتا رہا، سیاست دان اور حکمران عام آدمی کے نام پر غلط بیانی کرتے رہے، بیان بازی عروج پر رہی،  کوئی ڈھنگ کا کام نہ ہوا لیکن ایسا تو نہیں کہ ہم کر نہیں سکتے، ایسا بھی نہیں کہ ہم میں صلاحیت نہیں، ایسا بھی نہیں کہ ہم قابل یا اہل نہیں ایسا بھی نہیں کہ ہمیں کچھ آتا نہیں، ہم نکمے ہرگز نہیں ہیں، پاکستان باصلاحیت لوگوں کی سرزمین ہے۔ بات صرف اپنے لوگوں پر اعتماد کرنے انہیں مواقع فراہم کرنے، آئینی بالادستی کے نعرے لگانے والے میرٹ پر کام کریں تو سب چیزیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ حقدار کو حق ملے گا، باصلاحیت کو سفارش کی ضرورت نہیں رہے گی، کام کرنے والے کو معاوضہ ملے گا، حق، سچ کی بات کرنے والوں کو عزت دی جائے گی تو بہت سے مسائل از خود حل ہو جائیں گے۔ ہمارا ہوس، حسد، تکبر ہماری ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم متحد نہیں، ہمارا مقصد ملک و قوم کی خدمت نہیں، ہمارا مقصد ملک و قوم کی ترقی نہیں ہے، ہمیں ذاتی مفادات عزیز ہیں، آج ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن ہم تقسیم ہیں، ہمارے آباؤ اجداد نہتے تھے لیکن انہوں نے ہمارے لیے ایک آزاد ملک حاصل کیا۔ فرق صرف مقصد کے ساتھ لگاؤ کا تگا، فرق صرف امانت اور دیانت کا تھا۔ فرق صرف اتحاد اور یقین کا تھا، آج تو مال و دولت ہے، گاڑیاں ہیں، جہاز ہیں، زندگی کی تمام آسائشیں موجود ہیں پھر بھی ہم مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کب تک مشکلات میں گھرے رہنا ہے۔ اگر ہم تہیہ کر لیں کہ مشکلات کو ختم کرنا ہے، ہم متحد ہو جائیں تو یقین جانیے کہ دنیا کی کوئی ہمارا راستہ نہیں روک سکتی، کوئی دشمن ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ نئے سال کے آغاز پر ہمیں اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ بری عادات کو دو ہزار اکیس کے ساتھ ہی رخصت کر دینے کی ضرورت ہے۔ نئے سال پرانی مسائل کو حل کرنے کے لیے نیک نیتی، ایمانداری اور سمجھداری کی ضرورت ہے۔ 
ہم اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل سکتے ہیں، ہم مایوسی کو امید میں بدل سکتے ہیں، ہم مشکل کو آسانی میں بدل سکتے ہیں، ہم مشکلات ختم کر سکتے ہیں، ہمیں ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ پاکستان ایک انعام ہے، پاکستان ایک نعمت ہے،ہم نے مل جل کر اس نعمت کی حفاظت کرنی ہے۔ قومیں اپنے مستقبل کا فیصلے خود کیا کرتی ہیں، ہمیں سب کچھ حکمرانوں اور سیاست دانوں پر نہیں چھوڑنا ہے، ہمیں ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کی طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہنا، ہم نے باہر نکلنا ہے اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔ اس ملک کو مسائل سے نکالنا ہے، اس ملک کے کروڑوں کمزور لوگوں کے لیے امید بننا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو دوسروں کے حوالے کرنے کے بجائے، یا اس کی بہتری کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود میدان میں نکلنا ہے۔ سیاست دانوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ سچ بولیں گے، سچ کی ترغیب دیں گے، ملکی خزانے کی حفاظت کریں گے، ایماندار اور باصلاحیت افراد کو ٹکٹ دیں گے، ملک سے جھوٹ، الزامات، بہتان، بداخلاقی، عدم برداشت کی سیاست کو ختم کریں گے۔ نئے سال میں چہرے نہیں سوچ بدلی جائے گی، نئے سال میں نئی تاریخ رقم ہو گی۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ ووٹرز کو عہد کرنا ہے کہ وہ کسی چور، کرپٹ، نالائق، جرائم پیشہ اور بددیانت کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ہر نالائق اور بددیانت کا راستہ روکیں گے۔ ہم مل کر ہی ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ آپ سب کو نیا سال مبارک۔
دوسری طرف وفاقی وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے اعتراف کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے سات سو ارب ٹیکس کا کہا لیکن حکومت تین سو پچاس ارب پر لے آئی۔ پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان ہے ایسی مہنگائی دو ہزار آٹھ میں بھی تھی۔ گذشتہ چھ ماہ میں ہونے والی مہنگائی کا جائزہ لینا ہو گا۔ چلیں یہ تو مان رہے ہیں کہ جو ہو رہا ہے آئی ایم ایف کے کہنے پر ہو رہا ہے۔ قیمتیں آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑھ رہی ہیں۔ حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو حکومت کسی بھی چیز کی قیمت نہ بڑھائے عام آدمی مہنگے پیٹرول سے ہی اٹھنے کے قابل نہیں رہے گا۔ حکومت کا چوتھا سال ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف کے نہایت قابل وزراء  ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ اگر سب کچھ آئی ایم ایف نے ہی کرنا ہے تو پھر یہ وزارتیں کیوں سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ اسی پر خوش ہیں کہ ٹیکس کم کروا لیے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن سب کی کارکردگی ایک جیسی ہے۔ سب مل کر کروڑوں لوگوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سروے نے بھی حقیقت بیان کر دی ہے۔
اپسوس پاکستان کے سروے کے مطابق اپوزیشن کی کارکردگی پر چھپن فیصد پاکستانیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کر دیا ہے جبکہ پچپن فیصد پاکستانیوں نے تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی کو توقعات کے برعکس یعنی خراب قرار دیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی کارکردگی سے مایوس چھیالیس فیصد افراد ایسے ہیں جنھوں نے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا کہا۔ اپسوس سروے کے مطابق تریسٹھ فیصد پاکستانیوں نے صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ ہر دوسرا سروے موجودہ جمہوری حکومتوں کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے لیکن چند افراد کا "کاں چٹا" ہی ہے۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال میں پرانے وزراء کچھ نیا کرتے ہیں یا پھر گذشتہ برس کی کارکردگی کو ہی دہرائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن