لاہور میں تبدیلی کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے یہ اور بات ہے کہ ماضی میں ترقی کے نام پر کچھ ایسے میگا پراجیکٹ بھی شروع کئے گئے جن پر اربوں روپے تو خرچ ہو گئے لیکن اب وہ پنجاب کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گئے ہیں کہ نہ بندہو سکتے ہیں اور نہ ہی زیادہ عرصہ تک چلائے جاسکیں گے کیونکہ ایک تو ان کیلئے جو قرض لیا گیا اسکی بھاری قسطیں اب خسارے میں رہنے والے اس صوبے کے عوام کو اپنے ٹیکسوں سے دینا پڑ رہی ہیں۔ ان پروجیکٹوں کی بجائے اگر لاہور کے زیادہ رش والے چوکوں پر فلائی اوور اور انڈر پاس بنائے جاتے تو آج لاہور کی اصل شکل بھی بہت حد تک باقی رہتی اور پنجاب خسارے کے عذاب سے بھی بچ جاتا۔ ماضی کے مختلف ادوار میں جو انڈر پاس بنائے گئے انکی افادیت آج بھی واضح ہے شہر کے مجموعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے پنجاب کی موجودہ حکومت نے لاہور سمیت مختلف شہروں میں فلائی اووروں اور انڈر پاسوں کی تعمیر کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا اور شہر کے مختلف اہم حصوں میں انڈر پاس بناے جا رہے ہیں اور تیزی سے مکمل ہوتے ان منصوبوں کا ساتھ کے ساتھ افتتاح بھی کیا جا رہا ہے گزشتہ روز وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے گلاب دیوی ہسپتال کے قریب فیروز پور روڈ پر ریکارڈ مدت میں بننے والے انڈر پاس پراجیکٹ کا افتتاح کیا سردارعثمان بزدار نے انڈرپاس کو عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فل ہائٹ تھری لین انڈر پاس کھلنے سے ایک لاکھ 32 ہزار سے زائد گاڑیوں اور موٹرسائیکل سوارو ں کو آمد ورفت میں آسانی ہو گی۔ شفاف ٹینڈرنگ کے ذریعے تقریباً 6 کروڑ روپے کی بچت کی گئی ہے۔ جہاں عام شہری مستفید ہوں گے وہاں 4 بڑے ہسپتال گلاب دیوی، چلڈرن، سوشل سکیورٹی اور جنرل ہسپتال کے ہزارو ں مریضوں کو بھی آسانی ہو گی۔ انڈر پاس سے ملحقہ آبادیوں کے لاکھوں مکین بھی بلا روک ٹوک آمد ورفت جاری رکھ سکیں گے ۔ قصور کی طرف آنے جانیوالے لاکھوں شہری بھی انڈرپاس سے مستفید ہونگے اس موقع پر عثمان بزدار نے عبدالستار ایدھی انڈر پاس کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انڈر پاس کو انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والے مثالی انسان عبدالستار ایدھی سے منسوب کیاگیا ہے جبکہ گلبرگ سے جیل روڈ (صدیق ٹریڈ سینٹر) فلائی اوور کے منصوبے کو معروف شاعر منیر نیازی سے منسوب کیا گیا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ افتتاحی تقریب انڈرپاس ہی میں منعقد کی گئی اور کروڑوں روپے بچائے گئے۔ شاہدرہ موڑ پر ملٹی لیول داخلی و خارجی راستے کی تعمیر پر 6 ارب 50 کروڑ روپے خرچ ہوں گے اور شاہدرہ چوک پر ٹریفک کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوگا۔ اچھی بات ہے کہ موجودہ حکومت ماضی میں تعمیر کردہ بعض منصوبوں میں اصلاح پر بھی توجہ دے رہی ہے تو اس موقع پر ہم ان کی انتظامی ٹیم اورر خاص طور پر ایل ڈی اے کے متعلقہ حکام کی توجہ مغلپورہ سے رنگ روڈ تک نہر پر بنائے گئے ان یو ٹرن کی طرف بھی دلائیں گے جن کی افادیت صفر اور جانی نقصان بے پناہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے منصوبوں میں شیرانوالہ گیٹ کے فلائی اوور کے منصوبے کی بڑی اہمیت ہے اسکے کام کی رفتار کو بھی تیز کیا جانا چاہئے کیونکہ لاہور کے گنجان ترین حصے میں ہونے اوراکبری منڈی سمیت لاہورکی بڑی مارکیٹوں اور شاد باغ سمیت ریلوے سٹیشن اور ملحقہ اہم علاقوں کے مرکز میں ہونے کے باعث منصوبے کے کام کے باعث ٹریفک بہت متاثر ہو رہی ہے ایل ڈی اے نے لاہور 2ارب 45 کروڑ روپے کے 4 بڑے پراجیکٹ مکمل کیے ہیں۔ لال شہباز قلندر انڈرپاس، باب لاہور، اہم سڑکوں پر ٹریفک جام کے پوائنٹس کا خاتمہ اور مختلف مقامات پر شہریوں کے پیدل گزرنے کیلئے خصوصی پلوں کی تعمیر کے منصوبے مکمل ہوچکے ہیں ۔ لاہور میں 9ارب 16 کروڑ 70 لاکھ روپے کی لاگت سے 3 بڑے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ چلڈرن ہسپتال کے قریب لاہور برج پر اضافی لین تعمیرکی جارہی ہے ۔ 4 ارب 90کروڑ روپے کی لاگت سے داتا گنج بخش فلائی اوور بنایا جارہا ہے ۔ 2ارب 54کروڑ 80لاکھ روپے سے شاہکام چوک فلائی اوور کا منصوبہ جلد مکمل ہوگا۔ سگیاں روڈ کی تعمیر و توسیع پر 3ارب 40 کروڑ روپے لاگت آئیگی۔ 3ارب روپے کی لاگت سے مین بلیوارڈ گلبرگ تا والٹن روڈ ڈیفنس موڑ سگنل فری کوریڈور بنایا جائے گا۔ کریم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن پر انڈرپاس اور فلائی اوور کی تعمیر پر2ارب 90 کروڑ روپے لاگت آئیگی ان تمام منصوبوں کی تکمیل سے شہریوں کو بہت آرام ملے گا ۔ جہاں تک سابق حکومت کے چھوڑے دیگر منصوبوں کی طرح اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی بات ہے تو اسے بھی موجودہ حکومت نے فنڈنگ کر کے مکمل کیا ہے۔ سابق حکومت نے عوام کی فلاح وبہبود کا سوچے بغیر منصوبے بنائے جن پر اربوں ر وپے کی سبسڈی دینا پڑ رہی ہے ۔ ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی آمدن بھی نہایت کم ہے ۔ اس ضمن میں بھی کوئی فیصلہ کیا جانا چاہئے کہ جس سے ان منصوبوں کو نوپرافٹ نو لاس کی سطح پر لایا جا سکے ۔