ابوالاثر حفیظ جالندھری اور مولانا حالی پانی پتی

حفیظ مرحوم سے میری پہلی ملاقات خدا ساز بات تھی۔ قصہ یہ ہے کہ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب میں نے ’حفیظ کے گیت‘ نامی ایک کتاب پڑھی۔ بچوں کے لیے یہ نظمیں چار کتابچوں کی صورت میں الگ الگ چھپی تھیں اور شاعر کا نام حفیظ جالندھری لکھا تھا۔ پھر انہیں ایک ہی جلد میں یکجا کردیا گیا۔ یہی یک جلدی مجموعہ مجھے ملا، اسے پڑھتا رہا اور لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس کی متعدد نظمیں اتنی خندہ آور تھیں کہ ہنس ہنس کر آنسو نکل آتے تھے اور کئی نظموں میں نصیحت آموز باتوں کو بڑے دل نشیں انداز میں منظوم کیا گیا تھا۔ میٹرک تک آتے آتے میں نے شاعری شروع کردی تھی اور میری نظمیں بچوں کے رسالے ’تعلیم و تربیت‘ میں چھپا کرتی تھیں۔ پھر اگست 1954ء میں حکومت نے پاکستان کا قومی ترانہ منظور کیا تو مجھے خاص طور پر اس لیے بہت خوشی ہوئی کہ یہ میرے پسندیدہ بچوں کے شاعر کا لکھا ہوا تھا۔
1957ء میں لائل پور (فیصل آباد) میں ایک بڑا انڈو پاک مشاعرہ ہوا۔ میں جھنگ سے لائل پور گیا۔ رات بھر مشاعرہ جاری رہا اور فجر کی اذان سے ذرا پہلے آخری شاعر یعنی حفیظ جالندھری نے اپنا کلام سنایا۔ وہ جونہی مائیک کے سامنے آئے سینکڑوں سامعین نے ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اور ’رقاصہ‘ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ حفیظ نے سامعین سے مخاطب ہوکر کہا، ’میں ان سے زیادہ معیاری نظمیں سنا سکتا ہوں‘ لیکن سامعین کے نعرے بالآخر غالب آگئے۔ افق مشرق سے صبحِ صادق طلوع ہورہی تھی اور کالی کالی بدلیاں اٹھ رہی تھیں۔ ’وہ کالی کالی بدلیاں۔۔۔ افق سے ہوگئی عیاں‘ غرض نظم اتنی برموقع تھی کہ بہت لطف آیا۔ ان دنوں میں غزل گوئی شروع کرچکا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ کاش حفیظ میرے استاد بن جائیں لیکن یہ کیسے ممکن تھا!
چند سال گزر گئے۔ میں نے ایم اے کے امتحان کی تیاری کے لیے اپنی تمام توانائیاں نصابات کی تیاری کے لیے وقف کردیں اور تمام دلچسپیوں سے بھی درگزرا۔ غزل گوئی بھی اسی جنون کی نذر ہوئی۔ ایم اے پاس کرتے ہی حسنِ اتفاق سے میرا تقرر گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوگیا جہاں سے میں نے دو سال پہلے بی اے (آنرز) کی ڈگری لی تھی۔ پرنسپل ڈاکٹر سید نذیر احمد کی خصوصی توجہ سے یہ کام ہوا جو زمانۂ طالب علمی سے میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وہاں میرے سینئر رفقاء میں مرزا محمد منور سے جلد ہی قریبی تعلق ہوگیا۔ ایک روز کالج ٹک شاپ میں انہوں نے اپنی ایک غزل مجھے سنائی جس میں ایک شعر یہ تھا :
وہی سمجھا ہوں تم جو کچھ ہو یارو
تمہیں کیوں بدگمانی ہوگئی ہے
خوبصورت طنزیہ شعر تھا اور حفیظ کے رنگ میں تھا۔ میں نے یوں داد یا بے داد دی، ’جناب! یہ شعر آپ کا ہے یا حفیظ جالندھری کا؟‘ مرزا صاحب خوش ہوئے۔ ان دنوں وہ ماڈل ٹائون لاہور میں حفیظ کی وسیع کوٹھی کی انیکسی میں قیام پذیر تھے۔ شام کو انہوں نے یہ واقعہ حفیظ کے گوش گزار کیا۔ اس پر حفیظ بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے،’یہ کون شخص ہے جو میری شاعری کو اتنا سمجھتا ہے؟ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘ دوسرے دن حفیظ صاحب مجھ سے ملنے کے لیے کالج آگئے۔ میری تو عید ہوگئی۔ افسوس کہ میں شاعری ترک کرچکا تھا ورنہ ان کا شاگرد بننے کی خواہش پوری ہوجاتی۔ جاتے جاتے حفیظ صاحب کہنے لگے، ’تم سے پکی دوستی!‘ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کے بارے میں جو بہت کچھ افواہ سازی کی گئی ہے، وہ کتنی غلط ہے! وہ ہرگز مغرو ر نہیں تھے مگر لوگ مشاہیر سے پذیرائی کی جو توقعات وابستہ کرلیتے ہیں انہیں کوئی پورا نہیں کرسکتا اور وہ بھی حفیظ جیسا شخص جو اپنے مزاج کے خلاف کچھ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا اور کوئی برداشت کرے بھی کیوں؟ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ مشاہیر کی مصروفیات دوسروں سے بہت زیادہ ہوتی ہیں اور تخلیق تنہائی بھی مانگتی ہے، اس لیے کوئی کسی کو وقت دے تو اس کی مہربانی ہے اور نہ دے تو اسے دوش نہیں دیا جاسکتا۔
محمد حفیظ جو حفیظ جالندھری کے نام سے جانے گئے جالندھر شہر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے اور مولانا حالی یکم جنوری 1915ء کو رات دو بجے دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ دونوں شاعر جو قوم کی نشاۃ الثانیہ کے لیے عمر بھر کوشاں رہے، ہمیں ہر سال جنوری میں خاص طور پر یاد آتے ہیں۔ حالی کی وفات کے وقت حفیظ تقریباً پندرہ سال کے تھے شاعری کا آغاز کرچکے تھے اور ترنم سے اپنی غزلیں اردگرد کے شاعروں میں پڑھ کر مقبول ہورہے تھے۔ اس زمانے میں حالی کی مسدس کے چند بند جو اس مصرعے سے شروع ہوتے ہیں ’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘ بے حد مقبول تھے۔ علاوہ ازیں، ان کی دعائیہ نظم ’اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقت ِ دعا ہے‘ اتنی پسند کی جاتی تھی کہ میلاد کی محفلیں اس پر اختتام پذیر ہوتی تھیں اور لوگ روتے ہوئے محفل سے اٹھتے تھے اور دل میں یہ احساس بسا کر جاتے تھے کہ ہم کل کیا تھے اور آج کیا ہوگئے؟ اور سوچتے رہتے تھے کہ ہم زوال پذیر کیوں ہوئے اور ان خرابیوں کو کس طرح دور کریں کہ ہمیں ایک بار پھر عروج حاصل ہو۔
حالی، اکبر الٰہ آبادی ، اقبال تینوں کا اپنا اپنا انداز تھا مگر مقصد تینوں کا ایک ہی ہے۔ حفیظ جالندھری تینوں کو اپنا پیش رو سمجھتے تھے اور تینوں کے کلام سے رہنمائی لے کر اسی مقصد کی پیش رفت کے لیے عمر بھر کوشاں رہے۔ میں نے اکبر الٰہ آبادی کا بھی ذکر ان سے بار بار سنا ہے۔ اکبر کی وفات کے وقت حفیظ اکیس سالہ جوان تھے اور جالندھر سے لاہور آچکے تھے۔ ان دنوں انہوں نے داغ کی تقلید چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ وہ رومانی نظموں کے بل پر مشاعروں میں چھا جاتے تھے مگر آہستہ آہستہ انہیں احساس ہونے لگا تھا کہ انہوں نے حالی، اکبر اور اقبال کی طرح قوم کے لیے کچھ کرنا ہے۔ 1924ء کی ایک خوبصورت نظم ’عید کا چاند‘ بظاہر اقبال کی تقلید میں معلوم ہوتی ہے مگر آخری شعر پر مناجات ’اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقتِ دعا ہے‘ بے اختیار یاد آجاتی ہے:
بے کس کے عجز کو ملے رتبہ قبول کا
سن لے مری دعائوں کو صدقہ رسولؐ کا
یاد رہے یہ شعر حفیظ کے پہلے شعری مجموعے ’نغمہ زار‘ میں ہے۔ دوسرے مجموعے ’سوزوساز‘ میں یہ لے اور تیز ہوگئی ہے۔ رومانی موضوعات کے علاوہ قومی اور ملی موضوعات بھی خاص تعداد میں ہیں۔ یہاں تک کہ عام مسلمانوں کی معاشی بدحالی کے نقش بھی ابھرنے لگے ہیں اور انہوں نے اس زمانے میں ’شاہنامۂ اسلام‘ کا آغاز بھی کردیاتھا۔ ’شاہنامہ اسلام ‘لکھنے کا ارادہ حفیظ نے سرعبدالقادر کے ایما سے کیا۔ سر عبدالقادر (1950-1874ئ)نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بہت خدمات انجام دیں۔ قومی خدمات کے علاوہ انہوں نے بیسیویں صدی کے پہلے سال ’مخزن‘ کے نام سے ایک ایسا معیاری رسالہ نکالا جو ہر لحاظ سے اردو ادب کے لیے رجحان ساز ثابت ہوا۔ وہ اقبال کے عزیز دوست تھے۔ انہوں نے نوجوان حفیظ کی بھی سرپرستی کی اور انہیں مشورہ دیا کہ مشاعروں کے خرخشوں سے دامن کشاں رہو اور کوئی ٹھوس کام کرو۔ اس بات پر غور کرنے کے بعد انہوں نے ’شاہنامۂ اسلام) لکھنے کا ارادہ کیا۔ اس کی پہلی جلد 1929ء میں چھپی جس کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور اسلامی انجمنوں نے اسے سننے سنانے کے لیے خصوصی محفلوں کا انعقاد کرنا شروع کیا۔ اس کی اتنی مقبولیت نے قدرتاً بہت سے شاعروں کو حسد میں مبتلا کردیا۔ (جاری)
 ’شاہنامہ اسلام‘ کے بارے میں ایک مشہور شاعر نے تفنن کے طور پر کہا، ’اسلام کا شاہوں سے تعلق کیا ہے؟‘ پھر یہ اعتراض عام ہونے لگا کیونکہ جملہ بہت بڑا کاٹ دار ہے مگر غالباً کسی معترض نے ’شاہنامۂ اسلام‘ کے ابتدائی چند صفحے بھی کبھی نہیں پڑھے۔ یہ کتاب مسلمان بادشاہوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ تقریباً آٹھ ہزار اشعار پر مشتمل اس کی چار جلدیں عرب کی ابتدائی تاریخ سے شروع ہوتی ہیں اور غزوۂ احزاب پر ختم ہوجاتی ہیں۔ غالباً حفیظ اس کو خطبہ حجتہ الوداع تک لے جانا چاہتے تھے جب اللہ کی طرف سے تکمیل دین کی آیت نازل ہوئی مگر ایسا نہ ہوسکا چنانچہ ’شاہنامۂ اسلام‘ اچانک ختم ہوگیا اس لیے اس کا شاہوں سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔

 دراصل شاہ (محفف شہ) کا مطلب ہے ’بڑا‘ جیسے شاہکار یعنی بڑا کام، شاہراہ یعنی بڑی سڑک یا شاہرگ یعنی بڑی رگ وغیرہ۔ گویا ’شاہنامۂ اسلام‘ کا مطلب ہے اسلام کے بارے میں بڑی کتاب۔ مشہور ایرانی شاعر کا ’شاہنامہ‘ بھی بادشاہوں کے بارے میں نہیں بلکہ ایران کی اساطیری تاریخ ہے اور بڑی ضخیم کتاب ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ساٹھ ہزار اشعار ہیں۔ حفیظ کا ’شاہنامۂ اسلام‘ بھی اسی مفہوم میں اسلام کے بارے میں ضخیم کتاب ہے۔ اس کے شروع میں ایک شعر ہے:
کیا فردوسی مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا تو فیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
یہی ’شاہنامہ اسلام‘ کا مقصد و موضوع ہے۔ راقم السطور کا خیال ہے کہ ’شاہنامۂ اسلام‘ کے لیے حالی کی ’مسدسِ مدوجزرِ اسلام‘ محرک ثابت ہوئی۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن