گزشتہ کچھ ہفتوں سے بلوچستان ایک بار پھر بد امنی کا شکار ہے۔ خاص طور پر گوادر میں ” حق دو تحریک“ جسے انٹرنیشنل میڈیا ”گوادر رائیٹس موومنٹ“ کہہ رہا ہے بہت زیادہ متحرک نظر آ رہی ہے۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے کہ ان ہی دنوں میں افغانستان کی جانب سے بھی پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر حملے بڑھ گئے ہیں جن میں پاک فوج کے جوان زخمی اور شہید بھی ہوئے ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سب دشمن اور ان کی چالیں ڈھکی چھپی نہیں بلکہ سامنے ہیں۔ عالمی شطرنج کی بساط پر پاکستان پر کس کس جانب سے حملوں کی تیاری ہو رہی ہے اس کی نہ تو ہمارے سیاستدانوں کو فکر ہے اور نہ میڈیا کو۔ اس صورتحال نے جس قسم کا عدم استحکام پیدا کیا ہوا ہے، میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کے سارے سیاستدان مل کر پاکستان کے دشمنوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ آﺅ اور اس ارض پاک کو جیسے مرضی نوچو، بس میرے لیے کرسی چھوڑ دینا۔ موجودہ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ سارے ادارے اور سیاستدان مل کر بیٹھیں اور پاکستان کو اس منجھدار سے باہر نکالنے کی ترکیب کریں۔ اس وقت ” ون مین شو“ کی نہیں ”ٹیم ورک “ کی ضرورت ہے۔ پاکستان قائم اور محفوظ رہے گا تو آپس میں لڑنے کے لیے مواقع ملتے رہیں گے۔
پاکستان میں کہیں بھی اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی ہو اس کے اصل محرکات نہ تو ” بلوچ علیحدگی پسند“ ہیں اور نہ ہی یہ خالص ” مذہبی دہشت گردی“ یا فرقہ واریت یا معاشرتی حقوق کی جدو جہد ہے۔ جس کی پشت پر بیرونی اور عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے اپنا کھیل کھیل رہی ہیں ۔ بلوچستان کے محل وقوع اور موجودہ عالمی حالات کو نظر میں رکھیں تو عالمی طاقتوں کی اس خطے میں دلچسپی کی تین بڑی وجوہات نظر آتی ہیں۔ اول، یہ علاقے تیل ،گیس ، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں ، اور تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ جہاں جہاں قدرتی وسائل موجود ہوں وہاں عالمی طاقتوں نے تباہی ضرور مچائی ہے۔ دوسری اہم وجہ ہے بلوچستان کا محل وقوع۔ بلوچستان کے مغرب میں ایران اور شمال میں افغانستان واقع ہے اور اس کے ساحلی علاقے سمندری راستے سے مشرق وسطی سے ملتے ہیں۔ زمینی طور بھی یہ علاقہ گیس اور تیل کی ایک سے زیادہ عالمی پائپ لائنوں کی ممکنہ گزرگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل قریب کا اہم ترین تجارتی راستہ بھی ہے۔ اور اس علاقے کی اہم ترین بندر گاہ ” گوارد“۔ آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے عالمی سامراج کی نظریں اس خطے پر ہیں۔ ہنری کسنجر کے1962ءکے بیانات اور 1971 ءمیں امریکہ کے دورے کے دوران اندرا گاندھی کی جانب سے بلوچستان اور ” صوبہ سرحد“ ( موجودہ خیبر پختونخواہ) کو پاکستان کا حصہ ماننے سے انکار، اور2012ءمیں امریکی کانگریس میں پیش کی گئی قرار داد جس میں یہ ناجائز مطالبہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کو پاکستان کے تسلط سے آزاد کرو ا یا جائے، سب ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ اس عالمی مافیا کو کشمیر کی آبادی دہشت گرد اور بلوچستان میں نہتے عوام کو شہید کرنے والے دہشت گرد ”پرامن علیحدگی پسند “ نظر آتے ہیں۔
اس عالمی مافیا کا ” فرنٹ مین“ اور نور نظر اس وقت بھارت بنا ہوا ہے جو ایک تیر سے دو تین شکار کرنے کے چکر میں ہے۔ عالمی طاقتوں سے مالی اور سیاسی فوائد کا لالچ اور پاکستان اور اسلام دشمنی میں بھارتی حکومت پاکستان کے کچھ دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی مداخلت کر رہا ہے اور دہشتگردوں اور دہشتگردی کو زندہ رکھنے والی تینوں اہم چیزیں یعنی پیسہ ، ہتھیار اور تربیت ، بھارت خود اور اپنے کچھ دوست ممالک کے راستے بلوچستان میں پہنچا رہا ہے اور اس بات کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ بلوچستان میں ایرانی اور بھارتی مفادات کافی حد تک ملتے نظر آتے ہیں۔ کلبھوشن بھی ایران کے راستے ہی پاکستان آتا جاتا تھا۔ امریکہ کی نظریں ” سی پیک“ پر ہیں ۔ ”چاہ بہار“ کی بندرگاہ کے ذریعے سے ”سی پیک “ کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا تو اب امریکہ اور بھارت چاہیں گے کہ پاکستان میں اور خاص طور پر بلوچستان میں امن امان کی صورتحال بگڑتی جائے کیونکہ امن سی پیک سمیت کسی بھی تجارتی راستے کی کامیابی کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس مقصد کے لیے ”را “ کے چیف کی نگرانی میں سپیشل سیل قائم ہے اور ایک مشہور امریکی تھنک ٹینک ( فاس انسٹیٹیوٹ) کی رپورٹ کے مطابق اسوقت ”را“ کے ہزاروں ایجنٹ پاکستان میں کام کر رہے ہیں جن میں سے پانچ ہزار سے زائد بلوچستان میں ہیں۔
ان تمام عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان میں دہشت گردی ہو یا ” حق دو تحریک“ کے پردے میں بدامنی، ان سب کی حقیقت ایک ہے۔ بہت سی طاقتوں کے بلوچستان میں اپنے اپنے مفادات ہیں اور اس خطے میں ان کا ” سرغنہ“ اس وقت بھارت ہے۔ اس سنگین صورتحال کا حل صرف فوج یا طاقت کا استعمال نہیں ۔ جس طرح بھارت دہشت گردی کے ساتھ ساتھ سیاسی آگ لگا رہا ہے، پاکستان کی حکومت کو بھی بہت سے ” سیاسی حل“ ڈھونڈنے ہوں گے۔ ہم کئی دہائیوں سے اعلانات کر رہے ہیں کہ بس اب ہم بلوچستان میں تعلیم اور ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر کر دیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان اعلانات کو جلد از جلد اور جنگی بنیادوں پر عملی جامہ پہنا دیا جائے۔ ساتھ ساتھ بلوچستان کو تیزی سے معاشی ترقی دینے کی بھی ضرورت ہے چاہے اس کے لیے ملک کے دیگر حصوں کے کچھ ترقیاتی منصوبے کچھ عرصے کے لیے روکنے پڑیں۔ تعلیم ، شعور اور معاشی ترقی کے ذریعے سے ہی عام غریب بلوچ اس حقیقت کو سمجھے گا کہ ”یہ جو دہشت گردی ہے©، پیچھے اسکے ہندو سمرتی ہے!!“