آج 31دسمبر 2022رات گئے یہ کالم لکھ رہا ہوں ۔ چڑھے برس بروز سوموار یہ اخبار میں شائع ہوگا۔ گوجرانوالہ کے نوجوان شاعر طاہر راجپوت اس غلام ملک میں آزاد شاعری فرماتے ہیں۔ ان کی اس برس کی آخری نظم کا عنوان ہے ”گزرتا ہوا سال “ ۔ نظم کی پہلی سطر یا مصرعہ یوں ہے :
”بچھڑنے والوں کی صف میں اس سال کو بھی ڈال دو“۔ سو ہم ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ اس برس بہت سے دوست احباب ، عزیز رشتہ دار بچھڑے ۔کچھ نام یاد آرہے ہیں۔ عبدالرحیم انصاری ۔ یحیٰ کمال انصاری ۔ چوہدری ثناءاللہ جٹ ۔ آنے والے برس 29فروری کو 75برس کا ہو جاﺅں گا۔ کیا یہ ہنسی کی بات نہیں ؟2023ءمیں 29فروری کا دن آئے گا ہی نہیں ۔ پھر میں 75برس کا کیسے ہوا؟ لیکن نہیں ! ہو جاﺅں گا 75برس کا ۔بڈھا کھوسٹ ۔ سامنے والے دانت ندارد ۔ بندے کے اعضاءاس کا حکم نہیں مانتے ۔ لیکن وہ ان کی معیت میں جیتا جاتا ہے ۔ جیتا چلا جاتا ہے ۔ شہزاد نیئر نے کہاہے ۔
زندہ ہونا کچھ اور ہوتا ہے
سانس لیتے ہیں سو لئے جائیں
سو، اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔ اک شاعر نے کہا تھا۔
یارب نہیں میں واقف روداد زندگی
اتنا ہی مجھ کو یاد ہے جیا اور مر گیا
لیکن اس نے جھوٹ بولاتھا۔ بندے کو سب کچھ یاد رہتا ہے ۔ کوئی گزرا دن بھولتا نہیں۔ کچھ نہیں بھولتا۔کوئی خوشی بھی نہیں کوئی دکھ بھی نہیں۔ اخبار میں کالم 2003ءسے لکھنا شروع کیا۔ پہلا اخبار روزنامہ ”دن“ تھا۔ دوسرا شامی صاحب کا روزنامہ ”پاکستان“۔ پھر قافلہ شوق ”نوائے وقت “ آن ٹھہرا۔ اب اسی قیام سے دوسرے جہاں کوچ ہوگا۔ اللہ بخشے مشفق خواجہ کسی کو بخشنے کے قائل ہرگز نہیں تھے ۔ مگر عطاءالحق قاسمی بارے ان کا رویہ اتنا مشفقانہ کیوں تھا ؟ ہم نہیں جانتے۔ آپ جانتے ہوں تو بتائیے گا ضرور۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا تھا ۔ ”پاکستان میں کئی کالم نگار ہیں جنہوں نے کالم نگاری کا سکہ رائج الوقت بنادیا۔مثلاً عطاءالحق قاسمی ، عطاءالحق قاسمی ۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم مثلاً کے بعد کم از کم دو نام لکھیں گے لیکن اس لائق ہمیں ایک ہی نام نظر آیا۔سو ہم نے اس کو دو مرتبہ لکھ دیا ہے “۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے ای ایم ای کالونی لاہور میں ان کے گھر کا نام بھی لفظ ”کالم“ سے شروع ہوتا ہے ۔ غالباً ”کالم کاٹیج“۔ کالم نگاری کے اس سکہ رائج الوقت کو زندگی کے سفر میں ہم نے بھی بہت خرچ کیا۔ اس کے عوض عزت بھی خریدی ، اہمیت اور شناخت بھی ۔ لاہور مال روڈ پر اک زمانہ میں دو شیزان ریستوران ہوا کرتے تھے ۔ اب ایک بھی نہیں۔یادوں کے انبار میں ابھی کل کی بات لگتی ہے ۔ ہوگاسن 1991ء۔ شیزان اوپر والی منزل پر ڈاکٹر اجمل نیازی کے ساتھ چائے پینے گیا۔اک دوسری میز پروالد علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور ، شعیب بن عزیز کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیئے ۔ ان کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے بتایا ، یہ شعیب بن عزیز ہیں۔ اب وہ کون ہے جسے گرمیوں کی شاموں میں اداس پھرنے یعنی اس طرح کے کاموں میں اسطرح ہونے کی اطلاع دینے والا شعر یاد نہ ہو۔ میں نے اس شعر کے خالق پر اک نظر ڈالی اور پوچھا۔آپ دوسرا شعر کب کہیں گے ؟ اتنا ہی مشہورزمانہ اک شعر اور بھی ہے ۔ یہ شاید اک نسل نے مل جل کر گڑھا ہے ۔
شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دونگی
خط کا جواب نہ آیا تو ملنا ہی چھوڑ دونگا
اس شعر میں فیس بک سے پہلے خطر پتر لکھنے والی اک نسل کی مکمل روداد موجود ہے ۔ عمران خان سے ایک انٹر ویو میں پوچھا گیا ۔ آپ کا سب سے نا پسندیدہ شعر؟ جھٹ بولے ۔ شیشی بھری گلاب کی ۔۔۔۔۔۔۔۔اس بندے کو قوم کی ماﺅں ، بہنوں ، بیٹیوں اور لڑکیوں سے کتنی پذیرائی ملی ہے ۔ جسٹس کیانی نے کہا تھا۔پہلی حکومتیں عوام کو سبز باغ دکھایا کرتی تھیں ۔ موجودہ حکومت کالاباغ دکھا رہی ہے ۔ لو اور سنو ! اب کالا باغ کے مکینوں کے سبز باغ دیکھنے کے دن آگئے ہیں۔ لیکن قوم کی قسمت میں کالا باغ ، سبز باغ کچھ بھی نہیں۔ باغات اور پارک ناجائز تجاوزات کی زد میں آگئے اوربچوں کے کھیل کے میدان ٹاﺅ ن ڈویلپروں نے ہتھیا لئے ۔ پچھتر برسوں میں” ایک آنے کی روٹی دال مفت “سے 25روپے پر پہنچ گئی ہے ۔ساتھ مفت میں دال نہیں ملتی۔ ریاض خیر آبادی بتاتے ہیں :
مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا
مفلسوں کی موت بھی اچھی نہیں
چندہ اکٹھا کر کے کفن کا بندوبست تو ہو جائیگا لیکن میت کے دفن کیلئے جگہ کہاں سے آئیگی؟ قبر کیلئے مالک مکان ہونا لازم ہے ۔ لیکن ادھر شاعر کے احوال یوں ہیں :
کون پرائے دیس میں جا کر بے گھر ہوگا
بےدل مجھ کو میرا پاکستان بہت ہے
دیانتداری سے لکھنا اک عذاب ہوگیا ہے ۔ اپنے لکھے سے یا آپ تحریک انصاف کے حامی سمجھے جائیں گے یا پھر پی ڈی ایم کے۔ پی ڈی ایم کا مطلب خالص ن لیگ ہے ۔ باقی جماعتیں محض شامل باجا ہیں۔ دین میں پورے کے پورے شامل ہونے کا حکم آیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں بھی اسی شریعت کی پیرو کار ہیں۔ وہ اپنے تمام سیاہ سفید کی مکمل حمایت چاہتی ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ عمران خان کرپٹ نہیں۔ لیکن غالباًانہیں اپنی ”گوگی اور گوگیوں“کی کرپشن پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ انہیں ان پر اعتراض کرنے والوں پر اعتراض ضرور ہے ۔ ادھر دوسرے فریق کے ملازمین کے بینک اکاﺅنٹس میں دھڑا دھڑ دھن دولت کی برکات نازل ہو رہی ہیں۔ سو لکھنے والا بھلا لکھے تو کیا لکھے ۔ چپ ہی بھلی ۔ کھڑی شریف کے عارف نے کیا پتے کی بات کہی ہے ۔
عاماں بے اخلاصاں اگے گل خاصا دی کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی