پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے پاک بحریہ کی ایک تقریب میں کہا ہے کہ معیشت اور دہشت گردی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔جنرل عاصم منیر نے کوئی ایک ماہ قبل اپنا منصب سنبھالا ہے ۔ وہ ایک عرصے سے پاک فوج کا حصہ ہیں اور اعلیٰ مناصب پرفرائض منصبی ادا کرتے رہے ہیں۔دفاعی مسائل کے ساتھ ساتھ قومی مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔ خاص طور پر گذشتہ ایک برس سے کئی چیلنجز نے سر اٹھایا ہے ۔ انہوں نے خود بھی ان پر خوب سوچ بچار کی ہوگی اور جی ایچ کیو میں موجود ان کے دیگر ساتھیوں کو بھی ان مسائل کا کماحقہ ادراک ہوگا۔ اس پس منظر میں ان کی تجویز پر ہمیں ضرور عمل کرنا چاہئے تاکہ معیشت اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے اور ایک قومی اتفاق رائے کے ساتھ ان سے نبردآزما ہواجاسکے۔
آرمی چیف کی تجویز پر عمل کرنے کیلئے تمام قومی سیاسی پارٹیوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے۔اس وقت ملک کی تیرہ سیاسی پارٹیاں اقتدار میں ہیں۔ اس لئے ان کے مل بیٹھنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آنی چاہئے۔ اقتدارسے باہر پی ٹی آئی اورجماعت اسلامی قابل ذکر ہیں۔ دیگر سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی بھی اپنی جگہ اہمیت مُسلّمہ ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص کوشش کرے کہ ان سب پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے تو یہ ایک ناممکن کام ہوگا۔ اس لئے کہ پی ٹی آئی جب تک حکومت میں رہی ،اس کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان نے کبھی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کیا،حالانکہ گذرے برسوں میں ملک و قوم کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کرونا وائرس نے بھی وار کیا، بھارت نے بھی اس موقع پر سرجیکل وار کیا، خود عمران خان نے امریکی خط کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا، لیکن وہ اس پرغور و خوض کیلئے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک نہ ہوئے ۔ اقتدارمیں رہتے ہوئے اور اقتدار سے باہر آکر بھی انہوں نے مخالف سیاسی قائدین کو چور اور ڈاکو کا خطاب دیا اور پھر ایک موقع ایسا آیا جب انہوں نے فوجی قیادت کو بھی نہ بخشا۔ اسے بھی میرجعفر اور میرصادق جیسے القابات سے نوازا۔ اس لئے کوئی طاقت بھی چاہے، جس قدر مرضی خلوص کا مظاہر ہ کرے ، عمران خان کو باقی سیاستدانوں کے ساتھ بٹھانا ناممکنات میں سے نظر آتا ہے ۔ پی ٹی آئی سابق حکمران جماعت بھی ہے ، اس وقت ایک بڑی اپوزیشن طاقت بھی۔ اس کو شامل کئے بغیر قومی اتفاق ِ رائے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے صدر مملکت بڑی تندہی سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوششیں بے سودثابت ہوئیں۔حکومت ِ وقت نے بھی کئی مرتبہ میثاق ِ معیشت کی بات کی،تاہم پی ٹی آئی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اب لے دے کے ، فوج کی ایک طاقت اس قدر اثرورسوخ کی حامل ہے کہ وہ سب پارٹیوں کو ایک جگہ بٹھاسکے۔ مگر اتفاق کی بات ہے کہ فوجی قیادت اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گی۔ تو سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ یا تو خود پی ٹی آئی کو قوم کے سنگین مسائل کا احساس و ادراک ہو اور وہ مذاکرات پر آمادہ ہوجائے ، تاہم خدشہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے” فوری الیکشن “کے مطالبے کی شرط عائد کردے گی۔ جس کے لئے نہ حکومت آمادہ ہے ، نہ سیلاب کی وجہ سے ملک میں حالات سازگار ہیں۔ نہ آئین کی رو سے پارلیمنٹ کی پانچ سالہ ٹرم پوری ہوئی ہے۔اس کا مطلب یہی نکلا کہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
نواز شریف کے دورِ حکومت میں بھی دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ دوسری طرف، پی ٹی آئی کا دھرنا بھی اپنے زوروں پر تھا۔ اس دھرنے کے باعث چینی صدر کوبھی اپنادورہِ پاکستان منسوخ کرنا پڑا۔ اس دوران حکومت اور قومی جماعتیں دہشت گردوں سے مذاکرات میں مصروف تھیں اور ہیلی کاپٹر مذاکرات کاروں کو لا اور لے جارہے تھے۔ امریکہ اگر بیت اللہ محسود کو ڈرون کا نشانہ نہ بناتا تونہ جانے کب تلک دہشت گردوں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہتا۔ مگر اس اثناءمیں ایک سنگین قومی سانحہ رونما ہوا۔ کہ دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو پھول جیسے بچوں کو شہید کردیا۔
اس دلدوزسانحے نے قومی قائدین کوایک بار تو شدت سے احساس دلایا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک متفقہ ایکشن پلان بنائیں۔ یوں ریڈ زون میں پی ٹی آئی کو مہینوں سے جاری دھرنا ختم کرنا پڑا اور عمران خان نے پشاور کے گورنر ہاﺅس میں قومی و سیاسی و فوجی قیادت کے ساتھ مل بیٹھنے پر اپنی آمادگی کا اظہار کردیا۔میرے منہ میں خاک،میں نہیں کہتا کہ ایک بار پھر اتنا بڑاالمناک قومی سانحہ رونما ہو، تاکہ قوم کے تمام طبقات آپس میں مل بیٹھنے کا فیصلہ کرسکیں۔ سانحے تو روز رونما ہورہے ہیں۔ دہشت گردی نے پھر جڑ پکڑلی ہےیہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ قومی قیادتیں اپنے تمام تر باہمی سیاسی اختلافات کو بھلاکر وسیع ترقومی مفادمیں سرجوڑ کر بیٹھیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے معیشت اور دہشت گردی جیسے عفریت پر قابو پانے کیلئے ایک متفقہ لائحہ عمل بنائیں۔ آج ہمیں ایک بار پھر ایک متفقہ قومی ایکشن پلان کی ضرورت ہے ۔ہم کبوتر کی طرح اس خطرے سے آنکھیں بند کرکے معیشت وقومی سلامتی کودرپیش خطرات کو نہیں ٹال سکتے ۔ پاکستان بنانے کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا، آج پھر ملک کو بچانے کیلئے ایسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ تمام پاکستانی شہریوں ،جماعتوںاور اداروں سے اپیل ہے کہ خدارا ! خدا خوفی کا مظاہرہ کریں ، وطن کے وجود اور آزادی کی نعمت غیرمترقبہ کی قدر کریں، ہے کوئی دردمندپاکستانی شہری ، میری اورآرمی چیف کی آواز پر کان دھرنے والا۔
قومی مسائل پر قومی اتفاقِ رائے کی تجویز
Jan 02, 2023