پولٹری انڈسٹری کے10لاکھ افرادکی بے روزگاری کاخدشہ  

ملک بھر میں مرغیوں کی آخری سانسیں چل رہی ہیں۔ مرغی کو فیڈ نہیں مل رہی۔ اس معصوم پرندے کی خوراک کے اجزاء ہماری بندرگاہوں پر قانونی موشگافیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چند ہفتوں کے اندر اندر مرغی کے گوشت کی قیمت 357روپے سے بڑھ کر 410 روپے پہنچ چکی ہے۔ جس سے 10 لاکھ پاکستانیوں کا روزگار بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اسے سب سے بڑی ایگرو بیسڈ انڈسٹری کہاجا سکتا ہیجس کی ترقی کی رفتار 12فیصد سالانہ ہے۔پولٹری فارمز گوشت کی 50 فیصد مانگ کوپورا کرتے ہیں۔ ہم پروٹین کی شدید کمی والے ممالک میں شامل ہیں۔ 
مرغی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ پولٹری فیڈ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ ملک میں 350 پولٹری فیڈ ملوں میں کئی سو ارب روپیکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔مرغی کوبچانے کیلئے پولٹری فارمز ایسوسی  ایشن کے چیئرمین چوہدری محمد اشرف نے وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر آصف محمود جاہ کوایک درخواست بھیجی۔ یہ اپنی تاریخ کا ایک انوکھا ترین کیس ہے۔ کیس کی پوری کارروائی آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گی اور یہ سمجھ میں آجائے گا کہ اس ملک میں لاکھوں افراد کے روزگار اور صحت کا خیال کس کو ہے! اور جن عالمی معاہدوں کی پاسداری کے حوالے دیتے جاتے ہیں، درحقیقت، ان کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔
چوہدری اشرف نے ٹیکس محتسب کو لکھا کہ درآمدی سویابین برائلرز کی نشو و نما کیلئے لازمی ہے۔ اس کے 9 کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر ایف آئی اے کے ایماء پر پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ نے روک لیے ہیں۔ تاہم، ایف آئی اے نے وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹرآصف محمود جاہ کو بتایا کہ انہوں نے سویابین سیڈز کو روکنے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ لیکن پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ سویابین سیڈز کیکنٹینرزوں کو ایف آئی اے کے کہنے پر روکا گیا ہے۔اس سے ملک میں چکن اور انڈوں کی شدید قلت پیدا ہونے کاخدشہ ہے۔  فیڈ نہ ملنے سے چوزوں کی مانگ ختم ہو چکی۔ فارمرز بریڈر مرغیوں کو مارنے اور ہیچریاں بند کرنے پرمجبور ہیں۔ 
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ مصنوعات، یعنی پولٹری فیڈ کیلئے سویابین سیڈز امریکہ سے کئی برس قبل کیے گئے ایک معاہدے کے تحت منگوائے گئے ہیں ہیں۔ انہیں روکنا، امریکہ سے کے گئے معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مجھے ایک امریکی نے بتایا کہ کنٹینرز ریلیز نہ ہونے کی صورت میں امریکہ سے سویابین سیڈز کی درآمد کا معاہدہ ختم ہو سکتا ہے ۔ 
 وفاقی ٹیکس محتسب نے تمام قوانین کاجائزہ لینے کیلئے وزارتِ فوڈ سیکورٹی اور ایف آئی اے سے بھی رپورٹ مانگ لی۔ کسٹم انٹیلی جنس کے نمائندے نے بتایا کہ انہیں شبہ ہے کہ پولٹری فیڈ کے نام پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سویابین کے بیج اور کینولا درآمد کیا گیا ہے جسے اگایا بھی جا سکتا ہے لیکن ماحول کو خراب کرتے ہیں اور ان سے کئی بیماریوں کاباعث بنتے ہیں۔ ان میں GMO سویابین کے اجزاء کی موجودگی کیباعث ان کی درآمد کیلئے وفاقی حکومت کی اجازت ضروری ہے۔ کسٹم انٹیلی جنس کی اس اطلاع پر محکمہ پلانٹ پروٹیکشن نے این او سی روک لیا۔ اور اپنی پیشگی اجازت سے مشروط کردیا۔ اس دوران یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکہ سے معاہدوں کے تحت 90 دن قبل اطلاع دینا لازمی ہے۔ کیونکہ محکمہ پلانٹ پروٹیکسشن 2015ء میں ہونے والے اسی معاہدے کے تحت لائسنس جاری کر رہا ہے۔ اب اس معاہدے میں کسی تبدیلی کی صورت میں نقصان ہو سکتا ہے۔ 
ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کسٹمز نے 20 اکتوبر 2022ء  کے خط میں ڈی جی، محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کو لکھا کہ اسے ریلیز کرنے کیلئے پاکستان بائیو سیفٹی رولز، 2005 اور پاکستان انوائرمنٹ ایکٹ، 1997ء میں درج شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے۔ جس کے تحت جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سویابین منگوانے کیلئے وفاقی ماحولیاتی ایجنسی سے لائسنس لینا ضروری ہوتاہے۔ کیونکہ اس میں موجود LMO یا GMO ماحولیات کے لیے شدید خطرہ ہوتے ہیں۔ اسلیے مطلوبہ کھیپ کی مناسب تصدیق کے بغیر اسے کلیئر نہیں کیا جا سکتا۔ 

ای پیپر دی نیشن