گزشتہ چند سالوں نے کئی گوہر نایاب ہم سے چھین لئے، تقریباََ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے بڑے نام، بڑی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں۔ گزشتہ سے پیوستہ سال کا اختتام میرے لئے انتہائی غمناک تھا جس میں ہمیں ولی صفت والد محترم کی جدائی کا دائمی دکھ سہنا پڑااور سال 2022ءاُسی حزن و ملال میں کب گزرا یہ معلوم نہیں۔ گزشتہ چندبرس نجانے کیا قسم کھا کر آئے تھے۔ شاید ان چند برسوں نے زندگی کے تمام اسباق، تلخ حقائق اور چیرہ دستیوں سے روشناس کروانے کی ٹھان رکھی تھی۔شاید انہی چند برسوں کیلئے میں نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا
کافی تھا ایک حادثہ جو مجھ کو مار دے
کتنی ہی حادثات سے دو چار ہو گیا
قارئین کرام !کورونا جیسی آفت، ملکی معیشت کا دیوالیہ، سیاسی عدم استحکام ، سانحہ مری اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے پاکستان کی جڑوں کو گُھن سا لگا دیا ہے جو اندر ہی اندر وطن عزیز کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2022ءکی شروعات ہوئیں توپاکستان کے حوالے سے امیدوں کے چراغ آج ہی کی طرح روشن تھے۔ آنکھوں میں چمک تھی کہ اکیسویں صدی کا یہ تیسرا عشرہ دوسرے سال میں شاید بہتری کی جانب قدم اٹھائے گالیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ صورتحال مزید ابتر ہو گئی تھی بلکہ سال نو کا استقبال سانحہ مری جیسی افتاد نے کیا تھا جس میں شدید برف باری اور برفانی طوفان کے باعث سیاحوں کی گاڑیاں سڑکوں پر پھنس گئی تھیں۔ گاڑیاں پھنس جانے کے باعث دم گھٹ جانے سے 23 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔اپریل میں رجیم چینج نے ملکی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا تھا جس کے ”ثمرات“ سے سبھی مستفید ہوئے۔ وزیر اعظم بدلا، کابینہ بدلی،78وزراءپر مشتمل فوج ظفر موج تیار ہوئی ۔ نتیجتاََ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں واقعتا آسمان پر پہنچیں تو ”جمہور“ کی چیخیں نکل گئیں۔ بجلی کی قیمت میں 300فیصد اضافے نے ”جمہور“ کے کپڑے اتار کر بجلی کے جھٹکے لگائے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بد ترین اضافے نے ”دن میں تارے“ دکھائے۔ دہشتگردی کی نئی لہر نے ایک مرتبہ پھر خونیں لکیریں کھینچ دیں۔ موسمیاتی تغیرات اور موسمیاتی تبدیلیوں نے فطرت سے بغاوت پر انجام کی ہلکی سی جھلک دکھائی ۔ بد ترین معاشی صورتحال نے آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت کی لکیر سے کہیں نیچے کی جانب دھکیل دیا۔دوست ممالک نے غیر سنجیدہ اور مانگنے کی دائمی علت کے سبب ہاتھ کھینچ لئے۔ سی پیک کو لپیٹا گیا،ملک کو باقاعدہ آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھا گیا۔ غرض سسٹم کا بھٹا بٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ کرپشن کی بہتی گنگا نے ”برہمنوں“ کے وارے نیارے کئے ، جمہور تو خیرتھا ہی ”دلت“۔روپے کی قدر نے اقوام عالم میں ہمیں ”دو روپے “ کا بھی نہیں چھوڑا۔ ایک ٹکا اڑھائی روپے پاکستانی کا ہو گیا اور ڈالرنے روپے کو دھوبی پٹکا دیا تو ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر جالگی۔ اس وجہ سے ہمارے نئے سال 2023 ءکا آغاز ایک طرح سے وینٹی لیٹر پر ہوا ہے ۔ابھی چند روز قبل ہی ایک دوست ایک سروے رپورٹ پر گفتگو کر رہا تھا جس کے مطابق 66 فیصد پاکستانی نوجوان ملک چھوڑ کرجانے کیلئے تیار ہیں، اس کی بات پر میں نے کہا کہ باقی 44 فیصدکی اکثریت کو یا تو موقع نہیں مل رہا یا وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مشکل معاشی حالات اور عدم تحفظ کی سی کیفیت نے خاص طور نوجوانوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں اپنا مستقبل محفوظ نہیں سمجھتی۔ بالفاظ دیگر ان کے بقول وطن عزیز کا شمار ابLeast Livable Countriesمیں ہوتا ہے لیکن امید پر دنیا قائم ہے۔ مجھے یہاں لیاقت علی عاصم کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ
گزشتہ سال کوئی مصلحت رہی ہوگی
گزشتہ سال کے سکھ اب کے سال دے مولا!
قارئین کرام! نئے سال کے سورج نے نئی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ افق کوروشن کیا ہے۔خدا تعالیٰ نئے سال جڑی ان امیدوں کو بر لائے، آمین ۔لیکن کیا خدا تعالیٰ ہماری انفرادی و اجتماعی کاوشوں کے بغیر ایسا کرے گا؟ ہرگز نہیں کیونکہ ہمیں سسٹم بدلنے اور بہتری کی طرف جانے کیلئے خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ بگاڑ کا سبب ہم پر مسلط لوگ ہی نہیں بلکہ ہم خود بھی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی، منافقت، ہیرا پھیری، رشوت ستانی، شارٹ کٹ ، قوانین کی خلاف ورزی، نقب زنی و دوسروں کے حقوق غصب کرنے جیسی سماجی، قانونی اور اخلاقی برائیاں ہم ہی کرتے اور کرواتے ہیں۔ کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس دھرتی کی آبیاری ہم کر رہے ہیں، جو بیج ہم بو رہے ہیں ، اسے ہم نے ہی کاٹنا ہے، اس فصل کو ہماری نسلوں نے ہی کھانا ہے لیکن ہم جس تخم کی بوائی کر رہے ہیں اس سے جنم لینے والی فصل ہماری نسلوں کو ہی کھا جائے گی۔ نئے سال میں خوشیاں سمیٹنے کیلئے، وطن عزیز کے تابناک مستقبل کیلئے خود کو بدلنا ہوگا۔ خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ انفرادی طور پر شروع کریں۔ ہجوم سے قوم بنیں ۔