ودہولڈنگ ٹیکس بزنس کمیونٹی کیلئے وجہ ء پریشانی

راجہ عدیل اشفاق 
 ود ہولڈنگ ٹیکس پر کئی اعتبار سے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں، جن سے  تجارتی کمیونٹی کے بہت سے دوستوں نے اتفاق کیا ہے اور  بعض احباب  نے سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ سب سے بڑا سوال اور اعتراض یہ اٹھاْیا گیا کہ آپ کیسے ان پالیسیوں اور اصلاحات پر اعتراض اٹھا لیتے ہیں ، جنہیں عالمی مالیاتی اداروں کے انتہائی قابل ماہرین اپنی لیاقت اور مہارت سے تیار کرتے ہیں۔ان سب کیلئے گزارش  ہے کہ دیکھئے ، آج کی دنیا کمرشل دنیا ہے اور انویسٹر کو صرف اپنے نفع سے مطلب ہوتا ہے اور وہ اپنی انوسٹمنٹ کو محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات اٹھاتا ہے ۔لہٰذا جو پالیسیاں ان اداروں کی طرف سے دی جاتی ہیں ان سے آپ کوئی اور توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟ یہ تو ہمارے اداروں کا کام ہے کی اصلاحات کے نام پر ایسے قوانین نہ متعارف کروائے جائیں جو عوام کی پریشانی کا باعث بنتے ھوں۔ ود ہولڈنگ ٹیکس بھی ایک ایسا ہی ٹیکس ہے جو پاکستان کی بزنس کمیونٹی کیلئے پریشانی کا باعث ہے ، بلکہ یہ بات میں بار بار دہر ائی گئی ہے کہ یہ چھوٹے اور درمیانے تاجروں کو دستاویزی معیشت documented economy سے دور رکھنے کا باعث ہے۔ 
یہاں ایک اور بات کا بھی ذکر کرلیا جائے کہ اگرچہ پاکستان کی معیشت پر بے جا قرضوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے، مگر اعداد و شمار   ثابت کرتے  ہیں کہ پاکستان کا ratio  debt
   جی ڈی پی کا78% ہے۔ امریکہ کا 123% اور جاپان کا 255% ہے۔ آئی ایم ایف کی سائٹ  سے اس بارے معلومات دیکھی جا سکتی ہیں۔ 
 معاشی اشاریے ظاہر کرتے ہیں پاکستان کی معیشت قرض واپس کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔صورتحال اتنی بھی بری نہیں ہے جتنی ھمارے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ البتہ ، سالانہ بجٹ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ہماری آمدن ( direct and indirect taxes combined) تقریباً 9200 ارب ہے جس میں سے تقریباً 7300 ارب ھمیں ( Debt servicing ) کیلئے درکار ہیں ، باقی 1900 ارب سے25کروڑ عوام کا ملک کیسے چلے گا؟ہاں یہ ضرور ہے کہ  قرض لیتے وقت ہمارے نمائندے آسان شرائط نہ منوا سکے اور یہ بڑی کوتاہی ہے، اب ہمیں ان اداروں سے قرض واپس کرنے والے معاہدوں پر ضرور  bargain کرنی چاہیے اور مناسب سالانہ اقساط طے کر لینی چاہیں ہماری پالیسیاں بھی تاجر دوست اور عوام کو سہولت پہنچانے والی ہو جائیں گی۔
ساتھ ہی ساتھ ہمیں اب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اسلامی  بینکنگ کے حوالے سے بھی بات کر لینی چاہیے۔ تاکہ ہمارے موجودہ اور آئندہ لئے جانے والے قرضے ، اسلامی بینکنگ کے تحت ایڈجسٹ کئے جائیں - اسلام ہمیں سود سے منع کرتا ہے اور اب اسلامی بینکنگ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں رائج ہو چکی ہے۔ برادر اسلامی ملکوں سے کے ساتھ مل کرہمیں United Nations میں اسکی قرارداد پیش کرنی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن