معاشی نظام سے متعلق عالمی بنک کے ہوش ربا انکشاف

راہ حق …ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 
’’ پاکستان میں معاشی ماڈل ناکارہ ہو چکا ہے، فوائد تمام کے تمام اشرافیہ تک محدود ہیں حکومتی اخراجات میں اضافہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ وسائل اورمسائل کے مابین حد فاصل خرابیاں جنم دے رہی ہے،غربت کی بڑھتی اور پھیلتی رفتار نے قومی معیشت کے گرد سرخ دائرے لگا دئیے ‘‘28 دسمبر 2023 کو غیر ملکی جریدے میں شائع شدہ مشاہداتی رپورٹ میں کنٹری ڈائریکٹر عالمی بنک ہاجی بن حیسن نے ان وجوہ کا تذکرہ بار بار کیا جن کی وجہ سے پاکستان میں افراد کی فی کس آمدن میں کمی ہورہی ہے! عالمی بنک کے ذمہ دار عہدیدار کاکہنا درست ہے کہ پاکستان کے وسائل اور فوائد پر اس اشرافیہ نے قبضہ کررکھا ہے جو معاشی ثمرات عام آدمی تک پہنچنے نہیں دیتی۔ 5  فیصد اشرافیہ 95 فیصد لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے، مسلسل قرض اور  غیر ضروری منصوبوں نے قوم سے خوشیاں چھین لی ہیں۔ سیلاب متاثرین ایک برس سے دھائی دے رہے ہیں مگر ان کی آواز اونچے ایوانوں سے ٹکرا کر لوٹ آتی رہی۔ موسمیاتی تبدیلوں کے ساتھ مہنگائی اور افراط زر نے غریبوں کے خواب  چکنا چور کر دیئے مگر کسی کو غربت میں کمی‘ غریبوں کے دکھ اور فراہمی روزگار کا خیال نہیں ۔آپ وزارت خزانہ اور اقتصادی امور سے متعلقین کی پندو نصحتیں سنیں، معاشی اعشاریے دیکھیں ‘ جادوگری سے مزین اور اسٹاک ایکسچینج سے جڑے اتار چڑھاؤ دیکھیں آپ کو معاشرتی اور عوامی زندگی ’’جنت ‘‘ نظر آئے گی۔ خلیل جبران کا ایک درد بھرا جملہ سارے کے سارے معاشی اعدادوشمار اور معاشی اندازے زمین بوس کر دیتا ہے ،مغربی سکالر کہتے ہیں !!   ’’جس کے گھر میں بھوک کا بسیرا ہو اور جس کی جیب خالی ہو آپ  نے اس  مجبور سے اصول‘ قاعدے ‘ قانون اور ضابطے کی بات نہیں کرنی‘‘ اب  14 اگست  1947ء کو معرض وجود میں آنے والی ریاست کے باشندوں کی طرف  نظر دوڑائیں: 24 کروڑ افراد میں سے 12 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔  5 کروڑ نونہال ایسے ہیں جو آج بھی سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں۔ دو کروڑ 87 لاکھ گریجویٹس نوکریوں کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔2023ء میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد میں مزید کمی آگئی ہے ۔ ہم یہاں  ایچ ای سی کا تعلیمی گوشوارہ پیش کر دیں تو پریشانی بڑھ جائے گی۔ سابق آئی جی  مرحوم ناصر درانی  کہا کرتے تھے کہ روزگار کی عدم فراہمی نے نوجوان ذہنوں کو ’’بیمار‘‘ کر دیا ہے، نفسیاتی مریض سے بے راہ روی اور جرائم  سمیت کچھ بھی کرنے کی توقع ہے۔ پاکستان بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو دیکھ لیں آپ کو زیادہ تعداد نوجوان نسل کی ملے گی ۔یہ ہے کہ قائداعظم ؒکا وہ پاکستان جس کیلئے77 برس قبل تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی…یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشی زندگی دراصل معاشی مسئلے کا دوسرا نام ہے اور یہ  جملہ جاندار مخلوق میں بقائے حیات اور وسائل زندگی کے حصول کے فطری جذبے کی صورت میں موجود ہے نباتات میں نشو ونما کا احساس بھی اسی  فطری  جذبے کی ایک صورت ہے انسانوں میں بھی معاشی مسئلہ ایک عالم گیر حیثیت رکھتا ہے اسے فرد ،خاںداں قوم اور اقوام عالم میں برابر  اہمیت حاصل ہے دنیا کے وجود سے ہی انسان معاشی مسئلہ سے دو چار دکھائی دیتا ہے اور انسان ہمیشہ روزی کا متلاشی رہا ہے اور روزی کے حصول کے لئے اس نے ہر حربہ استعمال کیا یے اسلامی نقظہ نظر روزی کمانا انسانی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس کے نزدیک معاشی مسئلہ صرف معاشی نہیں بلکہ بیک وقت معاشرتی دینی اور اخلاقی ایمیتیوں کا حامل ہے اور دور حاضر میں تو اسے سیاسی اہمیت بھی حاصل ہو گئی ہے انسان آج تک اس مسئلہ کو حل کر نے کے لئے کوشاں ہے اور اس نے اصل اہمیت کو نظر انداز کر کے دولت کی فراوانی حاصل کی سائنسی و ایٹمی ترقی سے وسائل میں کثرت کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے آرام و آسائش کا سامان جمع کیا مگر انسانیت کا معاشی مسئلہ حل نہ کر سکا اور نہ انسانوں کو خوشحالی نصیب ہوئی کیا یہ حقیقت نہیں کہ وسائل و ذرائع کی اس دنیا میں 22افریقی ممالک کے لاکھوں انسان بھوکوں مر رہے ہیں اس گھمبیر صورت حال کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے کہ ایک مخصوص طبقے کو چھوڑ کر آج بھی انسان مجموعی طور پر بھوک اور معاش کا شکا ر ہے اس اہم معاشی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اسکو صرف روٹی ،مکان اور کپڑا کا مسئلہ نہ سمجھا جائے اور نہ یہ محض دولت کمانے کا مسئلہ ہے اس کو تمام انسانی مسائل۔ کا حصہ قرار دیا جائے اور اس کی اہمیت معاشی سیاسی اور مذہبی و اخلاقی مسائل کی روشنی میں متعین کی جائے ۔ رسول محتشم ؐنے انسانوں کو معاشی مسئلے کے حل کے ضمن میں کسب حلال کا درس دیا خدمت خلق اور رفاء عامہ کے کاموں کی طرف رغبت دلائی ۔دین کی معاشی زندگی اور تعلیمات کی روشنی میں انسان بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ 
ابھی کل ہی بات ہے پاکستان اپنے طور پر چین کو قرضہ دیا کرتا تھا پھر اس قرض میں بار بار رعائت دی جاتی رہی۔ بنکاک ‘ملائیشیاء، انڈونیشیاء ‘ قطر اور یو اے ای پاکستان سے مہربانی اورکرم نوازی کے طلب گار رہے اور آج یہ حالت ہے کہ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک‘ چین اور سعودی عرب پاکستان پر ’’مہربانی‘‘ کررہے ہیں۔ قوم کو مبارک ہو کہ ورلڈ بنک اور ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک سے قرض ڈالرز موصول ہوگئے ہیں۔ ترجمان اسٹیٹ بنک  نے زرمبادلہ کے ذخائر میں 78 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اضافے کی تصدیق کردی ہے

ای پیپر دی نیشن