چوہدری منور انجم۔
روشن مستقبل خوشحال عوام اور مستحکم پاکستان
سیاسی جماعتیں اپنے قومی اور بین الاقوامی ویڑن اور منشور سے جانی اور پہچانی جاتیں ہیں ان کا منشور ان کی سمت کا تعین کرتا اور عوام سے کئے گئے وعدوں کا امین ہوتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد جماعت ہے جس کا قومی ویڑن اور منشور واضع ہے جس کے مطابق ملک اور عوام کی بھلائی ترقی سر فہرست ہے۔ انتخابی میدان میں اترتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کر دیا ہے جسے عوام الناس میں سراہا جارہا ہے کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ جو جماعت ان کے مسائل کی بات کرے ان کو حل کرنے کی کوششیں کرے وہی جماعت حقیقی معنوں میں حکومت کرنے کی حقدار ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے قومی اخبار نے اپنے حالیہ ادارئے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کے مندرجات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور انتہائی اہم اور ایک لحاظ سے مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اس بات کا عہد، حلف اور وعدہ ہوتا ہے کہ منشور پیش کرنیوالی پارٹی اگر برسراقتدار آئی تو وہ ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے کیا اقدامات کرے گی، عوام کو پہلے سے حاصل سہولتوں میں کٹوتی کئے بغیر انہیں مزید کیا سہولتیں فراہم کریگی، قومی خزانے میں کیسے اضافہ کریگی اور ملک کو معاشی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے ترقی کی راہ پر کیسے گامزن کرے گی؟ بدھ 27دسمبر 2023ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی شہید رہنما، سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی 16ویں برسی کے اجتماع سے گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے الیکشن 2024ء کیلئے جو دس نکاتی منشور پیش کیا، وہ پارٹی کے نعرے’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ سے ہم آہنگ محسوس ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ اگر انکی جماعت کے پیش کردہ دس نکات پر عملدرآمد ہو جائے تو ملک کو درپیش ریکارڈ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کا سدّباب کیا جاسکتا ہے۔ منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ پانچ سال میں تنخواہوں کو دگنا کیا جائے گا، غریب طبقے کیلئے 300 یونٹ سولر انرجی کا انتظام کریں گے، غریبوں کو مفت بجلی دی جائے گی، ہر ضلع میں کم قیمت پر بجلی پہنچائی جائے گی۔ وعدہ کیا گیا کہ یکساں معیاری تعلیم کے منصوبے بروئے کار لائے جائیں گے، پورے پاکستان میں صحت کا مفت نظام نافذ ہوگا، سیلاب متاثرین کو گھر بنا کر دیئے جائیں گے اور کچی آبادیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق فراہم کئے جائیں گے۔ کہا گیا کہ غریب عوام کو بینظیر انکم سپورٹ کی طرز پر مدد فراہم کی جائیگی۔ کسان کارڈ جاری کرنے، مزدوروں کے لئے بینظیر انکم کارڈ متعارف کرانے، نوجوانوں کو یوتھ کارڈ کے ذریعے مدد فراہم کرنے، تمام ڈویڑنوں میں یوتھ سینٹرز قائم کرنے کے وعدے کئے گئے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا میں سندھ میں 20لاکھ گھرسیلاب زدگان کیلئے تیار کر رہا ہوں، ہماری حکومت آئی تو 30لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ دیں گے۔ انہوں نے وسیلہ روزگار اور دیگر منصوبوں کی صورت میں غربت کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ یہ بھی کہا کہ مزدوروں کی پنشن، سوشل سیکورٹی اور بچوں کو تعلیم کی سہولتیں دیں گے۔ پارٹی چیئرمین کے مطابق بیروزگاروں کو ایک سال کی مالی مدد فراہم کی جائیگی تاکہ وہ اپنا روزگار تلاش کرسکیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا بھوک مٹاؤ پروگرام قابل ستائش ہوگا۔ اس موقع پر پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ بلاول بھٹو نے جو وعدے کئے وہ انہیں پورے کرینگے۔
بطور دیرینہ کارکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام کی نبض شناس ہے وہ جانتی ہے کہ اس وقت عوام کن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں اور انہیں کیسے ان سے باہر نکالا جاسکتا ہے،سندھ میں تعلیم اور صحت کے ساتھ مواصلاتی نظام کی بہتری کی ایک دنیا معترف ہے لیکن اس پر ہمارا میڈیا کم ہی بات کرتا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی جب بھی برسراقتدار ئی ہے اس نے آئینی اصلاحات سے لیکر ملکی سطع پر بے شمار کام کئے ہیں جو ملکی میڈیا اور تاریخ کا حصہ ہیں ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ادوار میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بنیاد رکھی گئی اور 70 لاکھ سے زیادہ گھرانے اس سے مستفید ہوئے۔ وسیلہ حق پروگرام کے تحت تین لاکھ روپے تک کے بلا سود قرضے اور لاکھوں نوجوانوں کو 60 مختلف شعبوں میں فنی تربیت دی گئی اور ساتھ میں فی طالب علم 6000 روپے ماہانہ وظیفہ دیا گیا۔ یہ پروگرام آج بھی جاری ہے اور اس کا شمار دنیا کے چند بڑے اور کامیاب سوشل ویلفیئر پراجیکٹس میں ہوتا ہے۔
زراعت کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی حکومت نے کئی شاندار کارنامے انجام دیے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ 2007 میں 546 ارب روپے کی زرعی آمدن کو پانچ سالوں میں 1200 ارب روپے تک پہنچا دیا گیا۔ کسانوں کے لیے گندم کی سرکاری قیمت 425 روپے فی من سے بڑھا کر پانچ سال میں 1200 روپے فی من کردی گئی، جو اب آٹھ سال بعد 1350 تک پہنچ سکی۔ اس اضافے کی وجہ سے گندم کی پیداوار 20 ہزار ملین ٹن سے بڑھ کر 2013 میں 26 ہزار ملین ٹن تک جا پہنچی۔ گنے کی سپورٹ پرائس جو 2007 میں 60 روپے تھی کو پانچ سالوں میں بڑھا کر 170 روپے کیا گیا جو اب آٹھ سال بعد 180 روپے ہے۔ کپاس کی قیمت کا تعین کرنے کے لیے فری مارکیٹ سسٹم کا نظام متعارف کروایا گیا اور کسان کو کپاس کی فصل کا معاوضہ عالمی منڈی کے برابر یقینی بنایا گیا۔ اڑھائی لاکھ سے زائد ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخ 32 روپے فی یونٹ سے کم کر کے آٹھ روپے فی یونٹ کیے گئے۔ ان اقدامات سے 2013 میں میں پاکستان زرعی طور پر ایک خوشحال ملک بن گیا تھا۔ (معیشت سے متعلقہ درج تمام اعداد وشمار سرکاری ہیں اور آج بھی حکومتی ویب سائٹس اور اخبارات اور کالموں کی صورت اخباری صفحات پر موجود ہیں انہیں آپ گوگل کر کے دیکھ سکتے ہیں)
اسی حکومت نے پبلک پرائیویٹ سیکٹر میں 70 لاکھ کے قریب ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں پانچ سالوں میں 125فیصد سے لے کر 175فیصد اضافہ ہوا۔ پانچ سالوں میں اتنا اضافہ ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور اس اضافے کا اعزاز بھی پیپلزپارٹی کی اس حکومت کو ہی ملا۔ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ریاست کو مضبوط کرنے کے لیے 1973 کے آئین کی بحالی، صدارتی اختیارات کی پارلیمنٹ کو منتقلی، مکمل صوبائی خودمختاری اور 18 وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئیں، ججوں کی تعیناتی کے لیے نئے نظام کی تشکیل کی گئی، آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کی ابتداء کی گئی تاکہ بلوچ بھائیوں کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے۔ صوبہ سرحد کو عوامی مطالبے پر خیبر پختونخوا کی حیثیت سے نئی شناخت دی گئی، گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت دی گئی، فاٹا میں پرانے نظام کے خاتمے کی منظوری بھی اسی دور میں دی گئی۔ یہ وہ چند ایسے احسن سیاسی اقدام ہیں جن کی افادیت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں جمہوریت کے حامی اور ریاست کے وفادار ہوں گے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کا آصف علی زرداری کی قیادت میں ایک اور بڑا کام پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی کی تجدید ہے۔ پچھلے کافی عرصے سے چین کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا تھا جس سے ہماری دوستی میں خلیج بڑھنے لگی تھی۔ گوادر بندرگاہ کو ہانگ کانگ سے لے کر دوست ملک چین کے حوالے کرنے کا معاہدے کیا گیا، جس کے تحت خنجراب تا گوادر شاہراہوں کی تعمیر ہونا تھی۔ یہی منصوبہ آج سی پیک کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسلم لیگ ن اسے اپنی حکومت سے منسوب کرکے اس کا کریڈٹ لیتی ہے۔پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ شروع کیا گیا جس کی تکمیل دسمبر 2014 میں ہونا تھی مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے بیرونی دباؤ کے تحت وہ منصوبہ روک دیا۔یہ مختصر احوال ہے ان اقدامات کا جو پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ملکی بہتری کے لیے کیے۔ خارجہ، داخلہ، دفاع، خزانہ، خوراک و زراعت اور ہیومن ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں ان پانچ سالوں میں بیش بہا کام ہوئے مگر افسوس کہ ان کی مناسب تشہیر نہ ہو سکنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی انتخابات میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکی۔ضرورت اس امر کی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپن کارناموں کو اپنے انتخابی نعرے بنانا چاہیے۔