اقوامِ متحدہ کی پتھر کی آنکھ

کالم:لفظوں کا پیرہن 
تحریر:غلام شبیر عاصم 
مذہب اسلام کہتا ہے کہ مسلمان ایک دیوار یا جسم کی مثال ہیں۔اگر کسی ایک مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اس تکلیف کو اپنے قلب و جان پر محسوس کرتا ہے۔مگر اس مفہوم اور تصریحات کی عملی شکل ہمیں دنیائے اسلام میں بہت دھندلی نظر آرہی ہے۔دنیائے عالم میں کئی مقامات پر مسلمان اسلام دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہوکر شمشیرِ ستم کی خوراک بن رہے ہیں۔مگر اس ظلم اور  رزمِ حق و باطل کو دور بیٹھ کر دیکھنے والے مسلمان شاید یہود و نصاریٰ کی دلفریب سازشوں کا شکار ہوچکے۔آج ہم اس رشتہ اخوت کے معیار سے گر چکے   ہیں،اس کا صریحاً یہ مطلب ہے کہ ہم کامل مسلمان نہیں ہیں۔اگر کامل مسلمان ہوتے تو ہم واقعی دوسرے مسلمانوں کی تکلیف کو خود پر محسوس کرتے۔"کل مسلمہ اخوۃ" کی تڑپ اب ترپ میں بدل گئی ہے۔ہر کوئی دنیاوی لالچ اور مفادات میں اندھا ہوکر اپنے اپنے رنگ کے پتے پھینکنے میں مگن ہے۔مسلمانوں کو مسلمانوں ہی کی چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہیں۔  ہمارے مسلمان بہن بھائیوں پر دشمن تواتر سے بم پھینک رہے ہیں لیکن ہم بموں کی گھن گرج سے بے نیاز ہوکر ترپ کے پتے پھینک رہے ہیں۔گویا ہمارا  اندر ایمان اور خوف خدا کے فقدان سے بھرا ہوا ہے، ہم نے گویا کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں کہ صحنِ مقتل سے چیختی چلاتی ماوں،بہنوں اور بیٹیوں کی حسرت بھری مظلومانہ آوازیں کہیں مثلِ اذان  ہمارے کانوں میں نہ پڑ جائیں۔اور پھر جہاد کی خاطر ہمیں سوئے مقتل نہ جانا پڑ جائے۔غیر تو غیر اپنے بھی مسلمانوں کو بربریت میں گھرے دیکھ کر سوائے زبانی باتیں کرنے کے کچھ نہیں کر رہے۔ صرف میڈیا پر بیان بازی کرنے،ریلیاں نکالنے،تقریریں جھاڑنے،گلے پھاڑنے،لومڑی کی سی ہمت رکھتے ہوئے  شیر کی طرح دھاڑنے،کھوکھلے نعروں سے صدق و یقیں کے باغات اجاڑنے سے کیا ہوگا؟ کچھ نہیں ہوگا۔کسی دشمن ملک پر کوئی دباو نہیں بڑھے گا۔سینکڑوں ملک جس طاقت کے دباو اور چھاوں میں سانس لیتے ہوں اس پر بھلا کس کا دباو ہوسکتا ہے۔پیاسوں تک پانی،زخمیوں تک مرہم پٹی،بھوکوں تک کھانا،نہتوں تک اسلحہ یا کوئی کمک نہیں پہنچتی تو صرف وقتی اور فرضی سی ریلیاں کون سے انقلاب کو جنم دے سکیں گی۔ ہوا میں لفظوں کے تیر چھوڑنے اور ہیپی نیو ایئر کو سادگی سے منانے  سے کچھ نہیں ہونے والا۔تین ماہ ہونے کو ہیں کہ اس وقت فلسطین کے مسلمان صیہونی ظلم و جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔اب تک غزہ میں   17 ہزار 177 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں،جن میں 1712 بچے شہید ہوچکے ہیں7 اکتوبر سے اب تک 46 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں،جن میں سے 60 فیصد کو علاج کے لئیے فوری طور پر غزہ سے باہر منتقل کرنے کی ضرورت ہیکم از کم 7600 افراد گمشدہ ہیں شمالی غزہ کے تمام ہسپتال بند ہوچکے ہیں۔ رہائشیوں میں بھوک کی شرح سنگین حد تک بڑھ گئی ہے۔اسرائیلی حملوں میں 194 مساجد اور تین چرچ تباہ ہوئے ہیں۔فلسطین کے لئے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں شدید بم باری اور فوجی اپریشن کے سبب صورت حال مایوس کن ہوچکی ہے،امدادی فراہمی نہیں ہو پارہی۔فلسطین کی یہ صورت حال عالمی امن کے ٹھیکیداروں اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم برداروں کے منہ پر تھپڑ ہے۔اقوام متحدہ نے مسلم کش سوچ کے تحت  مسئلہ کشمیر پر بھی چپ سادھ رکھی ہے اور وہاں پت جھڑ میں گرتے ہوئے پتوں کی طرح آئے روز  لاشے گرتے ہیں۔فلسطین کی صورت حال کو بھی اقوام متحدہ اسی نفرت بھری آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔یہاں بھی مسلمانوں پر ہونے والا اسرائیلی ظلم و ستم  گویا اسے دکھائی نہیں دے رہا۔حالانکہ اقوام متحدہ کے قیام کا بڑا مقصد دنیا کو جنگوں کے برپا ہونے اور بڑے ملکوں کے چھوٹے ملکوں پر ظلم و ذیادتی کو روکنا اور کمزور ملکوں کے عوام کو تحفظ دینا ہے۔مگر اتنے بڑے عالمی ادارے کا وجود امت مسلمہ کی تباہی کے لئے کسی قوت کا منظم ہونا محسوس  ہورہا ہے۔طاقت اور اختیارات کے اعتبار سے تو اقوام متحدہ ایک ہاتھی کی مانند ہے،مگر قیام امن  کے تناظر میں اس کے بھاری بھرکم چہرے پر آنکھ بہت  ہی چھوٹی اور مسلمانوں پر جاری ظلم و ناانصافی کو دیکھنے سے محروم ہے۔ہاتھی جیسے بڑے وجود میں چھوٹی سی یہ آنکھ ہمیشہ طوطا چشم  ثابت ہوئی ہے۔خاص کر جہاں امت مسلمہ کے تحفظ و بقا کی بات ہوتی ہے وہاں اس آنکھ نے ہمیشہ کسی منقوص اور "پتھر کی آنکھ "والا کام کیا ہے۔جیسا کہ فلسطینیوں کی مظلومیت پر انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔جنگ بندی کی قرار داد کو بار بار مسترد کیا جارہا ہے.گزشتہ دنوں چند روز کے لئے اسرائیلی حملوں کے تعطل کو جنگ بندی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔وہ چند دنوں کا وقفہ بھی ایک طرح سے فلسطینیوں کے خلاف وجود میں ہمت و توانائی اکٹھی کرکے دوبارہ جھپٹنے والی بات  تھی۔اگر اقوام متحدہ واقعی امن  چاہتا ہے تو پھر مکمل طور پر جنگ بندی میں کون سی مجبوری درپیش ہے۔اقوام متحدہ جنگ بندی چاہتا ہی نہیں ہے۔حالات بتا رہے ہیں کہ جنگ تو بہت جلد بند ہونے والی ہے۔جب فلسطین کی  سرزمین سے انسان ہی ختم ہوگئے تو  اسرائیل کے آدم خور میزائل  اور توپیں خود بخود بھوک کے ہاتھوں دم توڑ جائیں گی۔پھر جنگ بندی کا سہرا بھی فلسطینیوں کے لاشوں کے سر پر ہوگا۔فلسطین کا بچہ بچہ مقتل میں قربان ہوکر توپوں کو خاموش کرا دے گا۔ اقوام متحدہ کا منحوس چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے کہ مسلمانوں کے تحفظ کے لئے یہ کبھی بھی قدم نہیں اٹھائے گا۔اقوام متحدہ  ہے تو بڑا طاقت ور ، پختہ اور طوطا چشم مگر مسلمانوں کی مظلومیت پر یہ ہمیشہ سے گونگا،بہرہ اور"پتھر کی آنکھ" رکھنے والا ثابت ہوا ہے بلکہ دل بھی پتھر سا رکھتا ہے۔دراصل اقوام متحدہ اسلام دشمن قوتوں کا ہی "منظم ادارہ ہے"۔جو مسلمانوں کے لئے  پتھر سا دل اور پتھر کی بے نور آنکھ رکھتا ہے۔اس لئے وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی گویا آنکھ نہیں رکھتا ،یعنی  وہ مسلمانوں کو دیکھتا بھانپتا ہے تو صرف نفرت آنکھ  سے،اس پر مستزاد یہ کہ اب مدد کے لئے مسلم برادری کی طرف دیکھتے دیکھتے مظلوم  فلسطینیوں کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں مگر احساسِ ندامت سے کسی کا پتھر دل موم نہیں ہوا۔نہ جانے پھر بھی کیوں فلسطین کی  آنکھیں پتھر دلوں کی جانب دیکھ دیکھ کر  پتھرا سی گئی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن