بھارتی حکومت نے مرحوم حریت رہنما سید علی گیلانی کی تحریک حریت جموں و کشمیر پر دہشت گردی اور ریاست مخالف پراپیگنڈے کے الزام میں پابندی لگا کر غیر قانونی قرار دے دیا۔
علی گیلانی کی زندگی کا زیادہ حصہ کشمیریوں کے لیے آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے جیل میں گزرا۔اقوام متحدہ کے چارٹر میں آزادی کے لیے پرامن جدوجہد کرنے کا کسی بھی قومیت کو حق دیا گیا ہے اسی کو استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کئی تنظیمیں آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز تنظیمیں بھی موجود ہیں۔شیخ عبداللہ کے خاندان جیسے لوگ اور گروپ بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اگر یہ بھی حریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں تو آزادی کی منزل مزید آسان ہو جائے۔بھارت کی طرف سے ریاست کے ہر باشندے کو دہشت گرد کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہے۔جو منظم طریقے سے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لے رہے ہیں ان کا تو عرصہ حیات ہی تنگ کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔بہت سے آزادی کے متوالوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کر دیا جاتا ہے۔قید تو ہر حریت پسند کا مقدر بن چکی ہے جس میں بہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے۔آج ساری کی ساری حریت تحریک کی لیڈر شپ خواتین سمیت جیلوں میں ہے۔ان کو حراست کے دوران خوراک اور طبی دیکھ بھال سمیت تمام بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔جیل سے باہر حریت تحریک کی قیادت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کونسل، ایمنسٹی انٹرنیشنل ،ہیومن رائٹس واچ اور انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس غیر قانونی طور پر نظر بند کشمیروں کی حالت زار کا نوٹس لے کر ان کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔یہ اپیل پہلے کی طرح بے سود ہی نظر آتی ہے۔ لیکن حریت رہنماؤں کی طرف سے ہمیشہ ان تنظیموں اور عالمی اداروں کا ضمیر جھنجوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اب بھارتی حکومت کی طرف سے حریت تحریک کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ٹویٹر پیغام میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ یہ گروپ کشمیر میں دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث ہے۔الزام بھی بھارتی حکومت کا عدالتیں بھی بھارتی حکومت کی تو انصاف کے لیے حریت ہسند کہاں جائیں؟اس حوالے سے اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ہی منظور کردہ قراردادوں پر عمل کروانا چاہیے۔ کیا اقوام متحدہ آخری کشمیری کے بھی مرنے کا انتظار کر رہی ہے۔