پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور اس سلسلے میں افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گرد عناصر سب سے زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے دراندازی کی کوشش کرنے والے تین دہشت گردوں کو سیکورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے جنرل علاقے بٹوار میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہلاک کر دیا۔ ہلاک دہشت گردوں سے اسلحہ، گولا بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا ہے۔ ایک اور واقعہ میں 30 اور 31 دسمبر کی درمیانی رات افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے ضلع اسپن وام کے علاقے میں پاکستانی سرحدی چوکی پر فائرنگ کی۔ پاک فوج کے جوانوں نے اس دہشت گردی کا بھرپور جواب دیا جس سے دہشت گردوں کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران نائیک عبدالرؤف شہید ہوگئے۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ پاکستان مستقل طور پر عبوری افغان حکومت سے کہتا رہا ہے کہ وہ سرحد کے اطراف میں مؤثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنائے۔ توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔
علاوہ ازیں، سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے مشکئی میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کے تبادلہ ہوا جس کے نتیجے پانچ دہشت گرد ہلاک ہو گئے اور دہشت گردوں کے ٹھکانے کو بھی تباہ کر دیا گیا اور اسلحہ، گولا بارود اور بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کر لیا گیا۔ علاقے میں موجود دیگر دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے سینی ٹائزیشن آپریشن کیا جا رہا ہے۔پاکستان کی سکیورٹی فورسز قوم کے ساتھ مل کر بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاڑ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
ادھر، جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے قافلے کے قریب ڈیرہ اسماعیل خان میں دو اطراف سے فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے وقت مولانا فضل الرحمن گھر پر تھے۔ ان کے بھائی مولانا عبیدالرحمن نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ فضل الرحمن کی گاڑی پارک انٹرچینج کے قریب پٹرول بھروانے کے لیے رکی تھی۔ ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) ناصر محمود کے مطابق، فائرنگ پارک انٹر چینج پلازہ پر ہوئی، مولانا فضل الرحمن پر نہیں ہوئی لیکن واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔ آر پی او کا کہنا ہے کہ پارک انٹرچینج کی پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا۔ پولیس نے حملہ آوروں کا بھرپور جواب دیا جو فرار ہو گئے۔ سیکرٹری داخلہ نے مولانا فضل الرحمن کے قافلے کے قریب فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
دہشت گردی کے واقعات سے متعلق ہونے والی تحقیقات کے ضمن میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیرملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظرِ عام پر آ گئے ہیں۔ افواج پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے اور سب پر یہ بات عیاں ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے۔ ٹی ٹی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی سے خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچ رہا ہے، بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 29 دسمبر کو ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا گیا، اس آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دہشت گرد کمانڈر راہزیب کھورے سمیت پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے اور ان دہشت گردوں سے غیر ملکی اسلحہ جس میں ایم 4 کاربین، اے کے 47 اور گولا بارود بھی برآمد کیا گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کی کسی کارروائی میں امریکی اسلحہ استعمال ہوا ہے، اس سے پہلے بھی کئی واقعات میں غیر ملکی اسلحے کے استعمال ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ افغانستان سے جدید امریکی اسلحہ کی پاکستان سمگلنگ اور ٹی ٹی پی کا سکیورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے دعوؤں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ممتاز عالمی جریدے یورو ایشین ٹائمز کے مطابق، پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی کارروائیوں میں امریکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان رجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔
پاکستان میں آئندہ ماہ عام انتخابات ہورہے ہیں جن کے پر امن انعقاد کے لیئے ملک میں امن و امان کی مثالی صورت حال قائم ہونی چاہیئے تاکہ کسی کے لیے انتخابات موخر کرانے کا کوئی جواز نہ نکل سکے۔ انتخابات میں ایک طرف امیدواروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ایک اہم مرحلہ ہے تو دوسری جانب عوام اور انتخابی عملے کا تحفظ بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے تیار تو ہیں لیکن جس تیزی سے دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں، یہ عام انتخابات کے انعقاد کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس موقع پر سکیورٹی فورسز اور تمام سٹیک ہولڈرز کو متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی کے لیے پالیسی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ عام انتخابات کا انعقاد ملک کے سنگین مسائل کے حل کے لیے نہایت ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو پائے گا جب ملک کے تمام حصوں کو اتنا محفوظ بنا لیا جائے کہ لوگ انتخابی عمل میں شریک ہوتے ہوئے خوف محسوس نہ کریں۔