وحید صابر عشق لاہور میں مبتلا ہیں اور ایسے مبتلا ہیں کہ دل کھول کر اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وہ لاہور سے عشق بیان کرتے ہیں اور اس تاریخی شہر کے عاشقوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ وقت بدلتا رہا، روایات بدلتی رہیں، طور طریقے بدلے، زندگی کے رنگ بدلے لیکن ہر بدلتے موسم میں لاہور آج بھی اپنی قدیم روایات سے جڑا ہوا ہے۔ دہائیوں سے " لسی " بیچنے والا آج بھی لسی بیچ رہا ہے، کلچے بیچنے والا آج بھی یہی کام کر رہا ہے، چنے بیچنے والا آج بھی چنے بیچ رہا ہے۔ سری پائے والوں کا ناشتہ کروانے والے آج بھی فجر کے وقت بہت مصروف ہوتے ہیں، بزرگان دین کے مزارات آج بھی لاہوریوں کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے دہائیاں قبل ہوا کرتے تھے۔ آج بھی بزرگان دین کے سالانہ عرس کے موقع پر روایتی تیاریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بادشاہی مسجد، مینار پاکستان، شاہی قلعہ، شالامار باغ، ریلوے سٹیشن، باغ جناح، مسجد وزیر خان شاہ عالم مارکیٹ سمیت اندرون شہر کی گلیاں آج بھی سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہیں۔
وحید صابر لکھتے ہیں بھائی جی ایک مشورہ دوں کبھی گھر سے نکلیں، راوی کے کنارے مٹی کو اٹھا کے خوشبو لیں اور پھر میانی صاحب جا کے مولانا موسی البازی اور مولانا احمد لاہوری کی فبر کساتھ سے مٹی کی خوشبو لیں، اور رکتے رکتے واصف علی واصف کی قبر کے سیدھے ھاتھ سے مٹی اٹھائیں
اور اپنے گھر لے جائیں۔ کچھ دیر کے بعد اپنے گھر کی خوشبو میں اور شہر لاہور کی محبت کو شاید سمجھ پائیں۔لاہور کی بڑھتی آبادی اور مختلف ذات نسل بھی اس شہر کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ گویا یہ شہر اپنے عاشقوں کے اعصاب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ وہ کبھی ،کسی دوسری جگہ پر سکون نہیں پا سکتے۔جمنا داس اختر، گوپال متل ، پران نوائل اور ان جیسے کئی قلمکار آزادی کے بعد لاہور سے کوچ کر گئے لیکن ان کے دل میں لاہور ہی اٹکا رہا۔معروف شاعرہ شبنم شکیل لاہور کے ہجر میں غزلیں کہتی رہیں۔
لاہور پیچھے رہ گیا ہم باوفا مگر
اس شہرِ بے مثال سے آگے نہیں گئے
شہرت بخاری لاہور سے اپنی محبت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
طور سینا ہو کہ لاہور کی گلیاں شہرت
حسن ہر رنگ گریزاں ہے خبردار رہو
بھارتی فلمی اداکار پران ،اوم پرکاش ،
دیو آنند ،یش چوپڑا اور ناول نگار ہپسی سدھو جیسے مشاہیر لاہور کی بزم سے اٹھ جانے کے باوجود اس کی طرف بار بار مڑ کر دیکھتے رہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور ایک کیف و مستی کا نام ہے۔پیدا ہونے کے لیے لاہور کے درشن کرنا بھی ضروری ہے۔
جو بھی اس شہر سے بہ امر ِمجبوری نکلا، وہ تمام عمر اس کافر حسینہ کے لیے مجنوں و فرہاد کی مانند آہیں بھرتا نظر آیا… لاہور باغوں، کالجوں، کھابوں، ڈھابوں، بابوں، خوابوں، خرابوں سے اٹا ہوا شہر تو ہے ہی لیکن اس شہرِ بے مثل کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ اس نے باہر سے آنے والے ہر کہ و مہ کو ہنس کے سینے سے لگایا … لوگ طلب ِعلم کے لیے آئے اور عالم بن کے نکلے… مولانا محمد حسین آزاد کو اسی لاہور نے مستقل گلے سے لگایا… اس نے سیالکوٹ کے محمد اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا… منشی غلام حسن کے میٹرک فیل بیٹے سعادت حسن کو منٹو کی شبیہ بخش دی… کالا قادر کے وکیل سلطان تتلہ کے فرزندِ ارجمند کو فیض احمد فیض کا روپ عطا کر دیا… خوشاب کا احمد شاہ یہاں احمد ندیم قاسمی بن کے جیا… ڈبائی کے ایک بے یارو مددگار مہاجر کو انتظار حسین میں ڈھال دیا… انبالہ کا ناصر رضا اس کی آنکھوں کے سامنے ناصر کاظمی بنا… منٹگمری کے محمد منیر کو کھلے دل سے منیر نیازی کی شناخت دی… غرض یہ کہ دلاور علی کو میرزا ادیب، شیر محمد کو ابنِ انشا، قدسیہ چٹھہ کو بانو قدسیہ، محمد اختر کو ساغر صدیقی، ملک واصف کو واصف علی واصف، عبدالحئی کو ساحر لدھیانوی، اورنگزیب خان کو قتیل شفائی،اللہ وسائی کو نورجہاں، رگھو پتی سہائے کو فراق گورکھپوری، غلام مصطفی کو صوفی تبسم کی پہچان اسی شہرِ طلسمات کی دین ہے۔ پھر یہ بات بھی آپ سب جانتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خاں، حمید احمد خاں، حفیظ جالندھری، مولانا صلاح الدین احمد، استاد دامن، کرشن چندر، فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، احسان دانش، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ،حبیب جالب،خورشید رضوی جیسے اہلِ کمال کو علمی و ادبی عظمت اسی شہرِ دل پذیر کی بخشی ہوئی ہے۔انھی ادبی فتوحات کی بنا پر یونیسکو نے حال ہی میں نہایت بجا طور پر اس شہر کو ’’ شہرِ ادب‘‘ قرار دیا ہے۔
باقی رہ گیا کہ لاہور کی عمر کیا ہے جب برطانوی ماہرین نے 1959 میں یہاں کھدائی کی تو انھیں یہاں سے چار ہزار سال پرانے مٹی کے برتن ملے تھے۔ اسی طرح محلہ مولیاں میں 2900 سال پرانے نوادارات ملے۔ یہ وہ دور ہے جب ہڑپہ ختم ہو رہا تھا۔ تو یہ بالکل صاف ہے کہ لاہور یہاں پر شروع سے آباد ہے اور یہ ہڑپہ کے دور سے شروع ہوتا ہے۔
کجھ روز گزار کے جنت وچ
سب درشن کر لے حوراں دے
جدوں پی لے جام انگوراں دے
اک بابے غم نال آہ بھری
نالے بات کہی اک صاف کھری
ایتھے ٹشن بڑی نالے ٹور وی اے
جو لبھنے ساں او دور وی اے
پر میریا مولا دس مینوں
کوئی جنت تیری ہور وی اے
جتھے وسدے نے سب دل والے
جتھے دسدا شہر لاہور وی اے
ڈاکٹر فخر عباس کا کلام
یہ جو لاہور سیمحبت ہے
یہ کسی اور سے محبت ہے
اور وہ اورتم نہیں شاید
مجھ کو جس اور سے محبت ہے
یہ ہوں میں اور یہ مری تصویر
دیکھ لیغورسے محبت ہے
بچپنا کمسنی جوانی آج
تیرے ہر دور سے محبت ہے
ایک تہذیب ہے مجھے مقصود
مجھ کو اک دور سے محبت ہے
اس کی ہرطرز مجھ کو بھاتی ہے
اس کے ہر طور سے محبت ہے
رحمان فارس نے لکھا
جب اس کی زندگی میں کوئی اور آ گیا
تب میں بھی گاؤں چھوڑ کے لاہور آ گیا
شبنم شکیل نے لاہور سے محبت کچھ یوں بیان کی
لاہور پیچھے رہ گیا ہم باوفا مگر
اس شہرِ بے مثال سے آگے نہیں گئے
شعیب بن عزیز کا کلام
کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا
مِرا بصرہ، مِرا بغداد مولا
بہت دکھ سہہ لیا اہلِ حرم نے
بہت دن رہ لیا ناشاد مولا
بہت سے شاد و فرحاں پھر رہے ہیں
ہمارے ساتھ کے برباد مولا
ہمارے حال کی بھی کچھ خبر لے
ہمارے دل بھی ہوں آباد مولا
یہاں بھی کھیتیاں سرسبز ہو جائیں
ادھر بھی آئیں ابر و باد مولا
ہمارے دْکھ جبینوں پر لکھے ہیں
بیاں ہم کیا کریں روداد مولا
تو کیا ہم اپنی باری لے چْکے بس
تو کیا اب ہم ہیں رزقِ یاد مولا
تو کیا یہ سب بساطِ رنگ و مستی
بچھے گی اب ہمارے بعد مولا
تو کیا یہ ہمدمی دائم رہے گی؟
یہ غم ہے کیا مِرا ہمزاد مولا
ہمارے چاہنے والے ہمیں اب
نہیں دیکھیں گے کیا دلشاد مولا
یہ جان و مال میرے تجھ پہ صدقے
ترے محبوب پر اولاد مولا
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
ترا مکہ رہے آباد مولا