نیا قبیلہ، نیا مذہب۔

Jan 02, 2024

عبداللہ طارق سہیل

پاکستان کی جغرافیائی حدود میں ریاستہائے متحدہ امریکہ و یورپ کے بہت سے جزیرے ہیں۔ ان جزیروں میں قیام پذیر بلند پایہ مخلوق بالعموم ’’جزیرہ بند‘‘ ہی رہتی ہے لیکن گاہے گاہے باجماعت باہر بھی آ جاتی ہے۔ گاہے گاہے والے یہ مواقعے ہالووین ، لست نائٹ، بلوامیر نائٹ کے علاوہ ’’آئی آئی پارٹی‘‘ کے جلسے جلوس دھرنوں پر مشتمل ہیں۔ ان مواقع پر ان کے ریلے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ آئی آئی پارٹی ڈیڑھ دو برس سے فالج کے زیر اثر ہے، باقی مواقع البتہ دستیاب ہیں۔ 
چنانچہ کل نیو ایر نائٹ پر یہ بلند پایہ مخلوق کراچی، لاہور، اسلام آباد، مری نیز چند ایک مزید شہروں میں باہر نکلی۔ ساری کی ساری نہیں ، اس کا معتدبہ حصہ ان فارم ہائوسز اور کلبوں میں محو نائو نوش اور رقص کناں رہا جن میں سے ہر ایک کی محض اراضی کی مالیت کئی کئی ارب روپے ہے۔ کئی ارب روپے کوئی خاص بڑی رقم نہیں، اتنے کا تو محض ولایتی شربت ہی ایک ایک فارم ہائوس میں ایک ہی رات میں پی لیا جاتا ہے۔ ان محافل میں شریک اس بلند پایہ مخلوق کا ایک ایک فرد کئی کئی کروڑ روپے جسم پر اوڑھ کر آتا ہے۔ کروڑوں کی تو محض گھڑی ہوتی ہے، ملبوسات رنگ، زیورات الگ، خوشبویات و پوڈریات الگ اور پتلون کی بیلٹ الگ۔ 
ہم لوگوں اور اس بلند پایہ مخلوق کا فرق واضح کرنے کیلئے پتلون کی بیلٹ ہی کافی ہے۔ ہم بیلٹ خریدنے کو نکلیں، دکاندار بتائے گا اڑھائی سو روپے کی ہے۔ اتنی مہنگی؟۔ ہم حیرت سے کہیں گے۔ 
اس مخلوق کا فرد اپنی مارکیٹ میں جائے گا، کتنے کی ہے۔ اڑھائی لاکھ روپے کی، دکاندار بتائے گا۔ اتنی سستی، یہ حیرت سے کہیں گے۔ 
بہرحال، اس بلند پایہ مخلوق نے رات اپنا جشن منایا، ’’حقیقی آزادی‘‘ کے جملہ تقاضے پورے کئے اور خورسند ہو کر صبح سویرے خواب گاہوں میں چلے گئے۔ ریاستہائے غیر متحدہ پاکستان نے اگرچہ فلسطینیوں سے یک جہتی کے لیے نیو ایر کے ھلّے گلّے پر پابندی لگا دی تھی لیکن ظاہر ہے، ریاستہائے غیر متحدہ پاکستان کے قانون یا حکم ناموں کا اطلاق ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپ کے جزیروں کی بلند پایہ مخلوق پر نہیں ہوا کرتا۔ 
______
غزہ میں نیو ایر نائٹ کا جشن اسرائیل نے بم برسا کر ،فلسطینی بچوں نے آگ میں جھلس کر منایا۔ ابھی خبر آئی کہ اسرائیل نے نئے سال کی پہلی صبح ایک ہسپتال پر آگ برسا کر کی۔  درجنوں افراد علاج معالجے کی ضروریات سے بے نیاز ہو گئے اور سینکڑوں نئے مجروح ان کی جگہ لینے آ پہنچے۔ غزہ کی شب آتش سالِ نو کی شب کے برعکس سدابہار ہے، 72 سال سے جاری ہے۔ تین مہینوں سے البتہ اس میں تشدت آئی ہے، بس یہ نئی بات ہوئی ورنہ رقص مرگ کا سلسلہ پرانا ہے۔ 
______
بھارت نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کیا جو پاکستانی حکومت نے فوراً ہی مسترد کر دیا جس سے ظاہر ہے، بھارت کو مایوسی ہوئی۔ 
اس مایوسی کا ذمہ دار بھارت ہے جس نے مطالبہ کرنے میں تاخیر کر دی۔ پونے دو سال پہلے، تین سال یا چار سال پہلے کیا ہوتا تو کبھی مایوسی نہ ہوتی۔ حافظ سعید کو ویسے ہی ’’سپردم بہ تو‘‘ کر دیا جاتا جس طرح بالاکوٹ پر بمباری کرنے والے پائلٹ ابھی نندن کو پروٹوکول کے ساتھ کیا گیا تھا۔ 
______
سعودی عرب سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص نے ایک بلّی کو پکڑا، پھر اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد پنجرے میں بند کر کے تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ ویڈیو میں آگ کے ایک گولے کو پنجرے میں اچھل کود کرتے، باہر نکلنے کی کوشش کرتے دکھایا گیا۔ چند منٹ کی بے تابانہ تگ و دو کے بعد یہ آگ کا گولہ ٹھنڈا ہو گیا۔ زندہ جلائے جانے والے ہر ذی روح کو فوری موت نہیں ملتی۔ کئی منٹ، کم سے کم دس بارہ منٹ تک تڑپنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے لکڑی تو نہیں جو ایک آدھ منٹ میں بھسم ہو جائے گی۔ گوشت ہے جسے دھیرے دھیے جل کر کوئلہ یا راکھ بننا ہے۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور بتایا ہے کہ ابھی ہم اس ملزم کے خلاف ثبوت ڈھونڈیں گے۔ 
دو روز پہلے ویت نام سے خبر آئی کہ ایک شخص کو تین سو بلیاں ڈبو ڈبو کر مارنے کے الزام میں پکڑ لیا گیا ہے۔ یہ خبر قدرے حیرت انگیز تھی۔ ویت نام سمیت اس پورے خطہ زردفام میں چین، کوریا، فلپائن، انڈونیشیا، کمپوچیا اور جاپان شامل ہیں، جانوروں کو اس طرح مارنے پر کوئی سزا نہیں، اب پتہ چلا کہ ویت نام میں اسے جرم قرار دے دیا گیا ہے جس کی سزا ایک مہینے کی قید ہے۔ انڈونیشیا کے ایک علاقے میں حال ہی میں جانوروں کا قتل جرم قرار دیا گیا ہے۔ 
اس پورے خطہ زرد فام میں روزانہ کروڑوں کے حساب سے کتے، بلیاں، راکون زندہ جلائے یا زندڈہ ابالے جاتے ہیں۔ صرف ویت نام میں بلیوں اور کتوں کا گوشت کھلانے والے سینکڑں ریسٹورانٹ ہیں جہاں گاہک کے سامنے جانور کو پنجرے سے نکال کر فائر پمپ سے زندہ جلایا جاتا ہے۔ زردفام اقوام کا عقیدہ ہے کہ جانور جتنی اذیت سے مرے گا، گوشت اس کا اتنا ہی زیادہ مزے دار بنے گا۔ کئی لوگ زندہ کتا یا بلّی خرید کر گاڑی یا موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ لیتے ہیں جانور گھسٹتا جاتا ہے اور پندرہ بیس منٹ تک گھسٹنے کی وجہ سے تڑپتے ہیں پھر مر جاتے ہیں، گھر پہنچتے پہنچتے ان کا گوشت لذیذ ہو چکا ہوتا ہے، حسب دلخواہ…بہت سے گاہک اپنے سامنے زندہ جانور کی کھال اتروا تے ہیں اور پھر اس جانور کو گرم کڑھائی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آدھ گھنٹے کے اندر ہی وہ مر جاتا ہے۔ اب چین اور کوریا میں انسانی اور حیوانی حقوق کی انجمنیں سرگرم ہوئی ہیں جس کے بعد ان واقعات میں معمولی سی کمی ہوئی ہے۔ 
سعودی عرب میں جس شخص نے بے زبان جانور کو جہنّم کی اذیت دی، اس کا مقصد لذّت بھرے گوشت کا حصول نہیں تھا۔ اس کا تعلق ایک اور قبیلے سے تھا جو حال ہی میں وجود میں آیا ہے اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ بالخصوص چین، ویت نام اور جاپان میں۔ یہ لوگ جانوروں کو طرح طرح کی ناقابل بیان اذیتوں سے دوچار کرتے ہیں اور اس واردات کی مکمل ویڈیو بناتے ہیں جو جانور کے مرنے پر ختم ہوتی ہے۔ کچھ اس ویڈیو کو نیٹ پر ڈال دیتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو شوق اور جنون کے ساتھ دیکھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ جذبہ اذیت کشی کی تسکین بھی ہو جاتی ہے اور پیسے بھی ملتے ہیں۔ مذکورہ عرب شہری نے بھی یہ وڈیو بڑے فخر سے میڈیا پر ڈالی۔ داد بھی پائی لیکن دوسرے لوگوں کی شکایت پر پکڑا گیا۔ نیا قبیلہ نہیں، یہ نیا مذہب ہے۔

مزیدخبریں