غلام اکبر
گزشتہ روز میری ملاقات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ہوئی ۔ قومی سیاست میں آج کل جو بھونچال آیا ہوا ہے اس پر تبادلہءخیال ہوا۔ میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ )ن(کی ممکنہ مفاہمت کے بارے میں انکی رائے معلوم کرنا چاہتا تھا مگر میرے سوال سے پہلے انہوں نے سوال کردیا۔
” بھائی نصرت جاوید ہاتھ دھوکر میرے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟“
” اگر آپ کا اشارہ انکے کالم کی طرف ہے تو ہر کالم نگار اور تجزیہ کار کو پورا حق ہے کہ آپکے یا کسی اور کے بارے میں کوئی بھی رائے رکھے اور اسکا بے لاگ اظہار کرے۔“ میں نے جواب دیا۔
”مجھے انکے اس حق پر کوئی اعتراض نہیں۔ “ عمران خان نے جواب دیا۔ ” مگر اپنا یہ حق میرے خلاف وہ اتنی کثرت کےساتھ کیوں استعمال کررہے ہیں....؟ اپنے پروگرام میں بھی وہ کسی نہ کسی بہانے مجھے زیر بحث لے آیا کرتے ہیں اور کھل کر زہراگلتے ہیں۔“
” زہر وہ آپ کےخلاف نہیں اگلتے اور نہ ہی آپ کے ساتھ انکی کوئی دشمنی ہے ۔“ میں نے جواب دیا۔ ” زہر وہ اسلام کےخلاف اگلنا چاہتے ہیں مگر اگلنے کا حوصلہ نہیں ۔ دشمنی انکی نظریہءپاکستان کےساتھ ہے جس کے اظہار کےلئے وہ کوئی نہ کوئی علامتی ہدف تلاش کرلیا کرتے ہیں۔“ ” مگر ہماری جماعت تو اعتدال پسند ہے۔“ عمران خان نے بڑی معصومیت کےساتھ کہا۔
” ہمارے لبرل سیکولر اور لادین دانشوروں کی نظروں میں اعتدال پسندی نام کی چیز کا کوئی وجود نہیں ۔“ میں نے جواب دیا۔ ” جس طرح جار ج بش نے کہا تھا کہ جو ملک امریکہ کےساتھ نہیں انہیں امریکہ کےخلاف سمجھا جائےگا‘ اسی طرح ہمارے یہ روشن خیال اور کشادہ نظر دانشور یہ کہتے ہیں کہ جو لوگ ان کےساتھ نہیں یعنی جو لبرلزم سیکولرزم لادینیت اور روشن خیالی کے سفر میں انکے ہم رکاب نہیں‘ ان کا شمار وہ رجعت پسندوں اسلامی بنیاد پرستوں اور دشمنانِ ترقی میں کرینگے۔ میری یہ بات سن کر عمران خان مسکرائے ۔ اور بولے ۔ ” مجھے اس تنقید کا ذرا برابر بھی ملال نہیں جو یہ لوگ مجھ پر کرتے ہیں۔ دکھ مجھے اس بات کا ہے کہ وہ اپنے مخصوص طور طریقوں اور انداز ہائے معاشرت کو جائز قرار دلوانے کےلئے اپنی قومی شناخت کا چہرہ مسخ کیوں کرتے رہتے ہیں۔اگر ہم مسلمان ہیں تو ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو نہیں ہیں....“
عمران خان کےساتھ ہونےوالی اس گفتگو کو میں نے اپنے آج کے کالم میں اس لئے درج کیا ہے کہ حالات و واقعات اور قرائن بتا رہے ہیں کہ ہمارا ملک بڑی تیزی کےساتھ دو متحارب سوچوں کے اس تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے جس سے ہمارے سیاست دان اور اہل فکر ایک عرصے سے نظریں چرا رہے ہیں۔ سیموئل ہنٹٹنگٹن نے 1990ءکی دہائی میں جو کتاب لکھی تھی اس کا عنوان تھا۔ Clash of Civilizationsیعنی تہذیبوں کا تصادم۔ اس عنوان کے کچھ سیاسی مقاصد تھے جن کا تعین واشنگٹن کے حکمت سازوں نے سوویت یونین اور کمیونزم کو شکست دینے کے بعد کیا تھا۔ یہ مقاصد مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے جارحانہ عزائم کے عملی اظہار کےساتھ ہی کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ ان مقاصد کی تکمیل کےلئے واشنگٹن کے کچھ کرشمہ ساز دماغوں نے اسلام کو انتہا پسندی کےساتھ نتھی کرکے اسے دہشت گردی اور خون ریزی کا ایک ” محرک سبب“ قرار دیا اور پھر ”دہشت گردی کےخلاف جنگ “ کی ترکیب ایجاد کرکے مسلمانان عالم کو اس شش و پنج میں مبتلا کردیا کہ وہ احیائے اسلام کو اپنی منزل بنا کر دہشت گرد کہلانے کا خطرہ مول لیں یا نہ لیں۔
یہ موضوع بڑی مفصل بحث کا متقاضی ہے۔ یہاں میرا مقصد ” تہذیبوں کے تصادم “ کے تصور کے پس منظر میں اس کشمکش اور آویزش کو سمجھنا اور سامنے لانا ہے جو ہمارے معاشرے کو سیاسی طور پر منقسم کررہی ہے۔ میری رائے میں ایک غیرا علانیہ جنگ شروع بھی ہوچکی ہے۔ یہ جنگ دو سوچوں کے درمیان ہے۔ ایک سوچ وہ ہے جس کے علمبردار ” نظریہ پاکستان “ کو تمسخر و تضحیک کا نشانہ بنانے میں پیش پیش رہے ہیں اور آج بھی پیش پیش ہیں۔ پہلے وہ ” قرارداد مقاصد “ کو ” نشانہ تضحیک“ بنانے میں احتیاط برتا کرتے تھے مگر اب وہ کھل کر کچھ اس قسم کی موشگافیاںکررہے ہیں کہ محمد علی جناح ؒ کے ” سیکولر تصورِ پاکستان “ کو ”ملاﺅں“ نے ہائی جیک کرکے اسے خدا کی حاکمیت اور شریعت کے نفاذ کا لبادہ پہنا دیا۔ اس سوچ کے علمبردار ماضی میں سوویت یونین سے درآمد شدہ ” ترقی پسندانہ افکار “ کے پرچم تلے مورچہ بند رہا کرتے تھے۔ مگر آج انہیں امریکہ نے ڈالروں کی چھتری فراہم کردی ہے۔ ساتھ ہی انہیں ایسی کمین گاہیں اور ایسے مورچے بھی مہیا کردیئے ہیں کہ وہ نڈر ہو کر ” اسلام “ کو للکارنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ بظاہر ان کا کام یوں آسان ہوگیا ہے بلکہ کردیا گیا ہے کہ اسلام کے نام پر کچھ ایسی وحشیانہ اور خون آشام دہشت گردی فروغ پا رہی ہے کہ عام راسخ العقیدہ مسلمان بھی اسلام کا نام لینے میں جھجک محسوس کرتے ہیں ۔ اس خوف سے کہ کہیں ان پر طالبان القاعدہ یا دہشت گردی کا لیبل نہ چسپاں کردیا جائے۔ دوسری سوچ وہ ہے جس کے علمبردار اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن پاک ایک الہامی کتاب ہے۔ اس کا نزول ساتویں صدی عیسوی میں آنحضرت پر ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں اسلام کو بنی نوع انسان کےلئے خدا کا آخری دین اور آخری اور حتمی نظام قرار دیا گیا۔
اس سوچ کے علمبرداروں کا ایمان ہے کہ چونکہ قرآن آئین الٰہی ہے اور اس آئین کی رو سے روئے زمین پر حتمی حاکمیت قادر مطلق کی ہے‘ اس لئے ان پر واجب ہے کہ وہ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس وطن‘ توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والوں کی اس مملکت میں وہی نظام قائم کریں اور رائج کریں جس کے قیام اور جس کی ترویج کےلئے آنحضرت نے 622ءمیںہجرت کے اس عظیم سفر کا آغاز کیا تھا جس نے دنیا کی تاریخ تبدیل کرڈالی۔
تو یہ جنگ دو سوچوں کے درمیان ہے۔
عمران خان کو نصرت جاوید اور نجم سیٹھی جیسے ” صاحبانِ فکر“ سے کوئی گلہ نہیں ہونا چاہئے۔
مسلمانوں نے پاکستان بنایا۔ اسلام نے مسلمانوں کو مسلمان بنایا۔ اسلام مسلمان اور پاکستان ایک دوسرے سے الگ کیسے کئے جاسکتے ہیں۔۔۔
گزشتہ روز میری ملاقات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ہوئی ۔ قومی سیاست میں آج کل جو بھونچال آیا ہوا ہے اس پر تبادلہءخیال ہوا۔ میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ )ن(کی ممکنہ مفاہمت کے بارے میں انکی رائے معلوم کرنا چاہتا تھا مگر میرے سوال سے پہلے انہوں نے سوال کردیا۔
” بھائی نصرت جاوید ہاتھ دھوکر میرے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟“
” اگر آپ کا اشارہ انکے کالم کی طرف ہے تو ہر کالم نگار اور تجزیہ کار کو پورا حق ہے کہ آپکے یا کسی اور کے بارے میں کوئی بھی رائے رکھے اور اسکا بے لاگ اظہار کرے۔“ میں نے جواب دیا۔
”مجھے انکے اس حق پر کوئی اعتراض نہیں۔ “ عمران خان نے جواب دیا۔ ” مگر اپنا یہ حق میرے خلاف وہ اتنی کثرت کےساتھ کیوں استعمال کررہے ہیں....؟ اپنے پروگرام میں بھی وہ کسی نہ کسی بہانے مجھے زیر بحث لے آیا کرتے ہیں اور کھل کر زہراگلتے ہیں۔“
” زہر وہ آپ کےخلاف نہیں اگلتے اور نہ ہی آپ کے ساتھ انکی کوئی دشمنی ہے ۔“ میں نے جواب دیا۔ ” زہر وہ اسلام کےخلاف اگلنا چاہتے ہیں مگر اگلنے کا حوصلہ نہیں ۔ دشمنی انکی نظریہءپاکستان کےساتھ ہے جس کے اظہار کےلئے وہ کوئی نہ کوئی علامتی ہدف تلاش کرلیا کرتے ہیں۔“ ” مگر ہماری جماعت تو اعتدال پسند ہے۔“ عمران خان نے بڑی معصومیت کےساتھ کہا۔
” ہمارے لبرل سیکولر اور لادین دانشوروں کی نظروں میں اعتدال پسندی نام کی چیز کا کوئی وجود نہیں ۔“ میں نے جواب دیا۔ ” جس طرح جار ج بش نے کہا تھا کہ جو ملک امریکہ کےساتھ نہیں انہیں امریکہ کےخلاف سمجھا جائےگا‘ اسی طرح ہمارے یہ روشن خیال اور کشادہ نظر دانشور یہ کہتے ہیں کہ جو لوگ ان کےساتھ نہیں یعنی جو لبرلزم سیکولرزم لادینیت اور روشن خیالی کے سفر میں انکے ہم رکاب نہیں‘ ان کا شمار وہ رجعت پسندوں اسلامی بنیاد پرستوں اور دشمنانِ ترقی میں کرینگے۔ میری یہ بات سن کر عمران خان مسکرائے ۔ اور بولے ۔ ” مجھے اس تنقید کا ذرا برابر بھی ملال نہیں جو یہ لوگ مجھ پر کرتے ہیں۔ دکھ مجھے اس بات کا ہے کہ وہ اپنے مخصوص طور طریقوں اور انداز ہائے معاشرت کو جائز قرار دلوانے کےلئے اپنی قومی شناخت کا چہرہ مسخ کیوں کرتے رہتے ہیں۔اگر ہم مسلمان ہیں تو ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو نہیں ہیں....“
عمران خان کےساتھ ہونےوالی اس گفتگو کو میں نے اپنے آج کے کالم میں اس لئے درج کیا ہے کہ حالات و واقعات اور قرائن بتا رہے ہیں کہ ہمارا ملک بڑی تیزی کےساتھ دو متحارب سوچوں کے اس تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے جس سے ہمارے سیاست دان اور اہل فکر ایک عرصے سے نظریں چرا رہے ہیں۔ سیموئل ہنٹٹنگٹن نے 1990ءکی دہائی میں جو کتاب لکھی تھی اس کا عنوان تھا۔ Clash of Civilizationsیعنی تہذیبوں کا تصادم۔ اس عنوان کے کچھ سیاسی مقاصد تھے جن کا تعین واشنگٹن کے حکمت سازوں نے سوویت یونین اور کمیونزم کو شکست دینے کے بعد کیا تھا۔ یہ مقاصد مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے جارحانہ عزائم کے عملی اظہار کےساتھ ہی کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ ان مقاصد کی تکمیل کےلئے واشنگٹن کے کچھ کرشمہ ساز دماغوں نے اسلام کو انتہا پسندی کےساتھ نتھی کرکے اسے دہشت گردی اور خون ریزی کا ایک ” محرک سبب“ قرار دیا اور پھر ”دہشت گردی کےخلاف جنگ “ کی ترکیب ایجاد کرکے مسلمانان عالم کو اس شش و پنج میں مبتلا کردیا کہ وہ احیائے اسلام کو اپنی منزل بنا کر دہشت گرد کہلانے کا خطرہ مول لیں یا نہ لیں۔
یہ موضوع بڑی مفصل بحث کا متقاضی ہے۔ یہاں میرا مقصد ” تہذیبوں کے تصادم “ کے تصور کے پس منظر میں اس کشمکش اور آویزش کو سمجھنا اور سامنے لانا ہے جو ہمارے معاشرے کو سیاسی طور پر منقسم کررہی ہے۔ میری رائے میں ایک غیرا علانیہ جنگ شروع بھی ہوچکی ہے۔ یہ جنگ دو سوچوں کے درمیان ہے۔ ایک سوچ وہ ہے جس کے علمبردار ” نظریہ پاکستان “ کو تمسخر و تضحیک کا نشانہ بنانے میں پیش پیش رہے ہیں اور آج بھی پیش پیش ہیں۔ پہلے وہ ” قرارداد مقاصد “ کو ” نشانہ تضحیک“ بنانے میں احتیاط برتا کرتے تھے مگر اب وہ کھل کر کچھ اس قسم کی موشگافیاںکررہے ہیں کہ محمد علی جناح ؒ کے ” سیکولر تصورِ پاکستان “ کو ”ملاﺅں“ نے ہائی جیک کرکے اسے خدا کی حاکمیت اور شریعت کے نفاذ کا لبادہ پہنا دیا۔ اس سوچ کے علمبردار ماضی میں سوویت یونین سے درآمد شدہ ” ترقی پسندانہ افکار “ کے پرچم تلے مورچہ بند رہا کرتے تھے۔ مگر آج انہیں امریکہ نے ڈالروں کی چھتری فراہم کردی ہے۔ ساتھ ہی انہیں ایسی کمین گاہیں اور ایسے مورچے بھی مہیا کردیئے ہیں کہ وہ نڈر ہو کر ” اسلام “ کو للکارنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ بظاہر ان کا کام یوں آسان ہوگیا ہے بلکہ کردیا گیا ہے کہ اسلام کے نام پر کچھ ایسی وحشیانہ اور خون آشام دہشت گردی فروغ پا رہی ہے کہ عام راسخ العقیدہ مسلمان بھی اسلام کا نام لینے میں جھجک محسوس کرتے ہیں ۔ اس خوف سے کہ کہیں ان پر طالبان القاعدہ یا دہشت گردی کا لیبل نہ چسپاں کردیا جائے۔ دوسری سوچ وہ ہے جس کے علمبردار اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن پاک ایک الہامی کتاب ہے۔ اس کا نزول ساتویں صدی عیسوی میں آنحضرت پر ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں اسلام کو بنی نوع انسان کےلئے خدا کا آخری دین اور آخری اور حتمی نظام قرار دیا گیا۔
اس سوچ کے علمبرداروں کا ایمان ہے کہ چونکہ قرآن آئین الٰہی ہے اور اس آئین کی رو سے روئے زمین پر حتمی حاکمیت قادر مطلق کی ہے‘ اس لئے ان پر واجب ہے کہ وہ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اس وطن‘ توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والوں کی اس مملکت میں وہی نظام قائم کریں اور رائج کریں جس کے قیام اور جس کی ترویج کےلئے آنحضرت نے 622ءمیںہجرت کے اس عظیم سفر کا آغاز کیا تھا جس نے دنیا کی تاریخ تبدیل کرڈالی۔
تو یہ جنگ دو سوچوں کے درمیان ہے۔
عمران خان کو نصرت جاوید اور نجم سیٹھی جیسے ” صاحبانِ فکر“ سے کوئی گلہ نہیں ہونا چاہئے۔
مسلمانوں نے پاکستان بنایا۔ اسلام نے مسلمانوں کو مسلمان بنایا۔ اسلام مسلمان اور پاکستان ایک دوسرے سے الگ کیسے کئے جاسکتے ہیں۔۔۔