جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اطہر سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے بابر اعوان توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انکے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران تمام قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہیں آئین کے مطابق حاصل بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یکم دسمبر دو ہزار گیارہ کو کی جانے والی پریس کانفرنس میں مزید چار وفاقی وزراء بھی شامل تھے جن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ مختلف امور میں عدالتی عمل پر اثر انداز ہونا توہین عدالت ہے اور عدلیہ کی حمایت میں جلسے کرنے والے بھی توہین عدالت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ اپنے پیشے سے الگ ہو جاؤں کیونکہ گزشتہ سات ماہ سے میرا لائسنس معطل ہے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ اپنے دلائل تقریباََ مکمل کر چکے ہیں تو مزید کتنا وقت چاہئے۔ بابر اعوان نے بتایا کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ دلائل پر کتنا وقت چاہئے، اس کیس کا کیا فیصلہ ہوگا وہ نہیں جانتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر سال چھٹیوں میں اپنے خاندان کے ساتھ عمرے پر جاتے ہیں لیکن اسبار وہ اس کیس کی وجہ سے نہیں جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں دلائل مکمل کرنے کے لئے مزید وقت دیا جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت پانچ جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے بابر اعوان کو کہا کہ وہ پانچ جولائی کو اپنے دلائل مکمل کریں اور اٹارنی جنرل کو بھی ہدایت کی کہ وہ پانچ جولائی کو بطور پراسیکیوٹر اپنے دلائل مکمل کریں۔