برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون درمیانے طبقے کے ایک سٹاک بروکر آئن ڈونلڈ کیمرون کے صاحبزادے ہیں۔ آئن ڈونلڈ کیمرون دونوں ٹانگوں سے معذور تھے اور وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھے۔ انہوں نے اپنی تمام زندگی یعنی 78سال ویل چیئر پر ہی گزارے۔ ڈیوڈ کیمرون جو کہ خود آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات میں ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ 22برس قبل برطانوی سیاست میں عملی طور پر داخل ہوئے اور اپنے والد کی بھی برابر خدمت کرتے رہے۔ برطانیہ کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا یہ شخص آج برطانیہ کا وزیراعظم ہے۔ اور 328 سال پرانی 10ڈاﺅننگ سٹریٹ جو کہ تین بیڈ رومز پر مشتمل ہے اس میں رہائش پذیر ہے۔ 10ڈاﺅننگ سٹریٹ جو کہ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس سرکاری رہائش گاہ پر ہمیشہ ہی سے غیرمسلح گارڈ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ لندن میں 7جولائی 2005ءکو دہشت گردی کا جو واقعہ پیش آیا اس کے بعد 10ڈاﺅننگ سٹریٹ میں سکیورٹی کے انتظامات کو ذرا سخت کر دیا گیا ورنہ برطانوی وزیراعظم خود پیدل چہل قدمی کرتے ہوئے اپنی سرکاری رہائش گاہ سے پارلیمنٹ بلڈنگ تک آ جایا کرتے تھے۔ موجودہ برطانوی وزیراعظم کا یہ معمول ہے کہ وہ بغیر کسی پروٹوکول کے اپنے بچوں کے ہمراہ ہر روز صبح سویرے ایک گھنٹہ جاگنگ کرتے ہیں۔ باقاعدگی کے ساتھ اپنے تمام ٹیکس ریٹرن بھی جمع کراتے ہیں اور ہر ہفتے پارلیمنٹ میں ممبران پارلیمنٹ کے سوالات کا جواب بھی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون آج کل افغانستان اور پاکستان کے سرکاری دورے پر تھے۔ ان کے ہمراہ نہ تو کوئی وزراءاور صحافیوں کی بڑی ٹیم تھی اور نہ ہی کوئی لمبا چوڑا ذاتی سٹاف تھا۔ محض چند ایک وزراءاور چند صحافی ان کے اس سرکاری دورے میں ان کے ہمراہ ان کے طیارے میں ہمسفر تھے۔ صحافیوں کو اپنے سفری اخراجات خود اپنے اداروں سے لے کر دیے گئے تھے۔ یعنی طیارے کا ٹکٹ اور دیگر خرچہ برطانوی میڈیا گروپس نے خود ادا کیا۔ اسی طرح برطانوی وزیراعظم اور ان کے وزراءکے تمام اخراجات بھی ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی کے ذریعے منظور کروا کر ادا کئے گئے۔ یہ کمیٹی برطانوی پاﺅنڈ اور ایک ایک پینی کا حساب آڈٹ ٹیم کو دے گی۔ برطانوی وزیراعظم نہ تو کبھی اپنے اثاثے عوام سے پوشیدہ رکھتا ہے اور نہ ہی اپنی دولت کبھی کسی دوسرے ملک منتقل کرتا ہے۔ دوسری جانب برطانوی افواج کے سربراہ ملکی سیاست میں کسی طرح کے بھی کردار کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ یعنی فوجی مداخلت اور جمہوری نظام میں فوج کا کردار یہ ناممکن بات ہے۔ نہ ہی کوئی حکومتی عہدیدار کبھی عدالتی نظام میں دخل اندازی کی جرات ہی کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی جاتی ہے اور پرویز مشرف اپنے ذاتی مفاد میں آئین پاکستان کو توڑ دیتے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ءکو جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور پھر 3 نومبر 2007ءکو عدلیہ کے ججوں کو ایک غیرآئینی حکم کے ذریعے غیرفعال کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ تلخ باب ہے کہ پاکستان میں آئین پاکستان کی خلاف ورزیاں بار بار ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ آ سکا۔ فوجی آمروں کے سیاسی بصیرت سے عاری فیصلوں اور اقدامات کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا اور اب باقی ماندہ پاکستان میں بھی قومی سلامتی کے حوالے سے بے پناہ خطرات سر اٹھا رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاالحق کا ٹرائل ہوا ہی نہیں جنرل پرویز مشرف نے آئین پاکستان توڑا اور منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح ماضی میں جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاءدور کی بنیاد رکھی اور پھر جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکمرانی پاکستان کو دو لخت کر گئی۔ اس کے بعد جنرل ضیاالحق کے دور نے پاکستان کو جس ناسور سے دوچار کیا اور اپنے دور میں جس نظام کی بنیاد رکھی اس کی سزا پوری قوم اب بھگت رہی ہے۔ دہشت گردی کے بیج اسی دور میں بوئے گئے۔ ”ہتھوڑا گروپ“ ڈرگ مافیا یہ تمام تحفے جنرل ضیاالحق کے دور ہی میں ملے۔ جموری حکومتوں کو ختم کر کے بعد میں فوجی آمریت مسط رہی اور پاکستان کو امریکی تسلط کے تابع کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ جنرل پرویز مشرف ہی کے کارنامے تھے۔ پاکستان میں چار مرتبہ مختلف اوقات میں فوجی جرنیلوں نے جمہوریت کی بساط لپیٹی لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ان چاروں مواقعوں پر ان فوجی جرنیلوں نے قوم کو حقیقی جمہوریت دینے کی نوید سنائی اور سیاستدانوں کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ پیش کی ذرا ملاحظہ فرمائیں جنرل ایوب خان نے 8 اکتوبر 1958ءکو ملک میں مارشل لا لگاتے وقت کیا کہا: ۔
"This is a drastic and extreme step taken with great reluctance but with the deepest conviction that there was no alternative to it except The disintegration and complete ruination of the country."
یعنی یہ کہ ماضی کے چاروں جرنیلوں کا ”میرے عزیز ہم وطنوں“ والا پیغام اپنے اندر ایک جیسے عزائم لئے ہوئے ہے۔ الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ باقی سب کچھ چاروں جرنیلوں کے مشترکہ عزائم کی کھلی عکاسی ہے۔ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہر فوجی آمر کو سیاستدانوں نے اپنا بھرپور تعاون بھی فراہم کیا اور ان فوجی آمروں کے اقتدار کا حصہ بھی بنے اور قومی خزانہ لوٹنے میں برابر کے شریک بھی رہے۔ فوجی آمروں کی چھتری تلے سیاستدانوں کو عروج بھی حاصل ہوا اور پھر موروثی سیاست کو بھی چار چاند لگے۔ یہ کہہ دینا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں محض فوجی جرنیلوں ہی نے نظام کو تباہ کیا یہ سراسر غلط ہے۔ سیاستدانوں بھی برابر کے شریک رہے ہیں۔ کاش کہ پاکستان میں بھی ڈیوڈ کیمرون، جان میجر اور نیلسن منڈیلا جیسے افراد جنم لیتے۔ یہ افراد درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جان میجر لندن میں بس کنڈکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے بے شمار سیاستدان اقتدار سے باہر رہ کر اپنا زیادہ تر وقت برطانیہ ہی میں گزارتے ہیں اور یہاں پر ان کے اثاثے موجود ہیں۔ یورپی بینکوں میں ان کی بھاری رقوم محفوظ پڑی ہیں اب جبکہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ یعنی سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین پاکستان توڑنے کے جرم میں کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایف آئی اے اپنی تحقیقات کا آغاز کر چکی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ سپریم کورٹ 31جولائی 2002ءکو اپنے فیصلے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو پوری طرح 3نومبر 2007ءکے غیر آئینی اقدام کا ذمہ دار ٹھہرا چکی ہے جبکہ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ 18ویں ترمیم نے 1999ءکی فوجی بغاوت میں ملوث فوجی آمر اور اس کے 4مبینہ نام نہاد ساتھی جرنیلوں کو آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کے ضمن میں بے دست و پا بنا رکھ دیا ہے۔ اب کوئی بھی حاضر جج کوئی بھی حاضر جرنیل، کوئی بھی سابق وزیر اعظم اور کوئی بھی سابق وزیر اور کوئی بھی سابق رکن اسمبلی آئین توڑنے یا اس عمل میں معاونت کرنے پر کارروائی کا سامنا نہیں کرے گا۔ ان حالات کی روشنی میں ماضی کے تمام فوجی آمروں کو علامتی سزا دے کر سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور اعلیٰ عہدیداروں کو سخت تنبیہہ کر کے اس قصے کو اب ختم کر دیا جانا چاہئے۔ اگر واقعی اب بھی سابق جرنیل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنی ہی ہے تو پھر آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے حکم کی حدود میں رہتے ہوئے تمام معاملات طے ہونے چاہئیں۔ پرویز مشرف کو صفائی پیش کرنے کے تمام مواقع ملنے چاہئیں اب یہ اصول بھی ہمیشہ کے لئے طے ہو جانا چاہئے کہ پاکستان پر آئندہ صرف اور صرف جمہور کی حکمرانی ہو گی۔ کیونکہ یہ ملک حضرت قائداعظمؒ نے ووٹ کے ذریعے بنایا تھا۔ امید کی جانی چاہئے کہ اب ملکی اداروں میں تصادم کی نوبت نہیں آئے گی۔ اور موجودہ حکومت اپنی تمام تر توانائیاں ملک کو درپیش مسائل کے حل کرنے پر صرف کرے گی۔ جس سے جمہوری نظام مضبوط ہو گا اور آمریت کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا۔ ماضی میں آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے افراد کو علامتی ٹرائل کے ذریعے علامتی سزائیں دے کر ملک کو مزید بحرانی صورت حال سے بچایا جا سکتا ہے کیونکہ ملک اس وقت کسی بھی سیاسی اور آئینی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہرحال شکر ہے جنرل کیانی کسی بھی صورت حال میں ”میرے عزیز ہم وطن!“ کہنے والے نہیں۔