سال دو ہزار چھ کاذکر ہے ، اس وقت میں برطانیہ میں براڈکاسٹ جرنلزم میں ماسٹر کر رہی تھی۔ سوشیالوجی آف نیوز بھی ہمارے نصاب کا حصہ تھا ، خبر کیا ہوتی ہے ؟ خبر کاانتخاب کیسے کیا جاتا ہے ؟ خبر کی اہمیت کس بنیاد پر ہوتی ہے ؟ ہیڈ لایئنز کس طرح بنتی ہے ، خبر بننے کے لیے کیا کیا لوازمات ضروری ہوتے ہیں ؟ یہ سوشیالوجی آف نیوز کے خاص موضوعات تھے۔
ہمارے ٹیچر نے ایک بار کلاس میں خبر کی اہمیت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر برطانیہ میں دس افراد مر جائیں تو یہ بڑی خبر ہو گی اس کے بجائے اگر پاکستان میں دو ہزار افراد مارے جائیں تو یہ کوئی بڑی خبر نہیں ہو گی۔ انہوں نے اس بارے میں نوم چومسکی کی ایک کتاب کا حوالہ بھی دیا ، اپنے وطن کے لوگوں کی یہ ناقدری اور ان کے بارے میں اس قدر ظالمانہ رویہ دیکھ کر مجھے نہایت صدمہ ہوا اور مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے اس پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا توساری کلاس میں سناٹا چھا گیا۔ میرے ٹیچر نے بڑی نرمی سے کہا کہ میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر نیوز کا انتخاب جزبات کے بجائے اس کی اہمیت کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آئرش ہوں اور ستر کی دہائی میں خود مجھے اس تکلیف سے گزرنا پڑا جب میں دیکھتا تھا کہ آئرلینڈ کے لوگوں کے بارے میں خبروں کو برطانوی میڈیا میںبالکل اہمیت نہیں دی جاتی تھی ۔ مگر جب میں خود اس شعبے میں آیا تو پھر مجھے علم ہوا، چاہے ہمیں اچھا لگے یا برا مگر نیوز کے انتخاب کا یہی معیار ہے۔ کچھ عرصے بعد مجھے یہی سوال نوم چومسکی سے پوچھنے کا بھی موقع ملا اور انہوں نے بھی کہا کہ بدقسمتی سے آج کی دنیا میں میڈیا کا نیوز کی اہمیت کوجانچنے کا پیمانہ اسی بے حسی پر مبنی ہے۔
مجھے عملی طور پر میڈیا کے اس ظالمانہ رویئے کا سامنا اس وقت ہوا جب میں نے ایک برطانوی اخبار میں عملی صحافت کا آغاز کیا ، اس وقت سونامی میں پھنس جانے والے ایک برطانوی شخص نے مجھے فون کیا اور اپنی دکھ بھری داستان سنائی اس شخص کے گھر کے سات افراد اس سونامی کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس کی جان بڑی مشکل سے بچی تھی ، اس کی کہانی سن کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ میں نے جب یہ سٹوری بنا کر اپنے ایڈیٹر کو دی تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کتنے لوگ مارے گئے ہیں ؟ میں نے کہا کہ سات افراد مرے ہیں تو میرے ایڈیٹر نے کہا کہ جب تمھارے پاس سو افراد کے مارے جانے کی اسٹوری ہو پھر میرے پاس لے کرآنا۔ میڈیا کی خبروں کے انتخاب کے اس طریقہ کار کو میرے ذہن نے کبھی قبول نہیں کیا۔ پاکستان کے بارے میں انٹرنیشنل میڈیا کے رویئے کا گلہ ہم اس لیے بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی نگاہ میں ہماری نہ کوئی اہمیت ہے نہ کوئی قدر و قیمت مگر ہمیں خود تو اپنے ہم وطنوں کی جانوں کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے ۔
جس وقت ہمارے لاکھوں پاکستانی شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں نکلے تو ہمارا میڈیا اس وقت جہاز کی بزنس کلاس میں بیٹھے طاہرالقادری کو فوکس کئے ہوئے تھا اور اس کے بعد بھی کئی دنوں تک میڈیا کی ترجیح ساڑھے چار لاکھ لٹے پٹے افراد کے بجائے طاہرالقادری کے بلند و بانگ دعوے بنے رہے ۔
مجھے اتنے دنوں تک شمالی وزیرستان کے وہ بوڑھے مرد اور عورتیں میڈیا پر دکھائی نہ دیں جو شمالی وزیرستان میں اپنے گھر بار چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں نکلے ہیں ۔ مجھے دکھائی دیئے تو صرف طاہرالقادری کے امپورٹڈ انقلاب پر بحث و مباحثے اور گلو بٹ کے چرچے ، میں سوچتی رہی کہ ہمارے میڈیا کے نزدیک اپنے لاکھوں ہم وطنوں کے المیے کے بجائے ایک غیرملکی شہریت کے حامل شخصیت کے دعوے زیادہ اہم کیوں ہیں ؟ قومی اہمیت کے معاملات کے بجائے ہماری توجہ سطحی اور عارضی قسم کے جوش و خروش پر کیوں مرکوز ہو جاتی ہے ؟ جو ملک حالت جنگ میں نہیں بلکہ سچ مچ ایک بڑی اور تباہ کن جنگ سے گزر رہا ہو جس کے لاکھوں شہری اس وقت پوری قوم کی توجہ اور مدد کے منتظر ہیں۔ اس کے میڈیا کے نزدیک یہ کوئی بڑی خبر ہی نہیں اس رویئے کو قومی بے حسی نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے ؟ قوموں کی زندگیوں میں اس طرح کے بحران آتے ہیں مگر زندہ قومیں ایسے موقع پر اپنی تمام دلچسپیاں چھوڑ کر تمام اختلافات بھلا کر اپنے وطن کی حفاظت اور اپنے مصیبت زدہ بھایﺅں کے لیے متحد ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کے میڈیا اور ساری قوم کے لیے اب وہ وقت آ چکا ہے جب ہمیں ہر کام چھوڑ کر صرف اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی مدد کو ترجیح دینی چاہیے۔ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ تو ابھی بحران کا آغاز ہے ۔اقوام متحدہ خبردار کر چکی ہے کہ یہ تعداد بڑھ کر سولہ لاکھ تک ہو سکتی ہے ، ہمیں اس بحران کی سنگینی کا احساس کرنا ہو گا ، اور اس سے نپٹنے میں حکومت کا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ یہ المیہ اتنا بڑا ہے ساری قوم کی مدد کے بغیر اس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہے۔
آئی ڈی پیز کے بحران کو بھی اسی توجہ اور اہمیت کی ضرورت ہے جو دو ہزار پانچ کے زلزلے میں دکھائی دیا تھا۔ جس طرح میڈیا نے تمام پروگرام چھوڑ کراس زلزلے سے متاثرہ لاکھوں لوگوں کے دکھ اور تکالیف اپنی اسکرینوں پر دکھائیں تھیں اور جنہیں دیکھ کر پوری پاکستانی قوم ان کی مدد کے لیے اکٹھا ہو گئی تھی آج شمالی وزیرستان کے ساڑھے چار لاکھ بے گھر افراد بھی میڈیا اور قوم کی اسی توجہ کے منتظرہیں۔