وفاقی بجٹ میں لاکھوں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور اُجرتوں میں 10 سے 15 فیصد اضافہ تو کر دیا گیا ہے مگر اضافے سے استفادہ کرنیوالوں نے بجائے اسکے کہ مالی اور معاشی بدحالی کے شکار اس ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، بیروزگاری اور کمرتوڑ مہنگائی کے مسائل کے حل کا انتظار کرتے، تنخواہوں میں مذکورہ بالا معقول اضافے پر صبر شکر کر کے بیٹھ رہتے، اُلٹا بعض شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دئیے اور مجوزہ اضافہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں فتح عوام کو گزشتہ حکومت کی ناقص حکمت عملی کے خاتمے ہی کے وعدوں اور دعوئوں کی بنیاد پر ہی ملی تھی تاہم ایک سال گزرنے پر بھی نہ صرف بجلی، گیس اور توانائی کے دیگر وسائل کی دستیابی ہی ممکن ہو سکی بلکہ اقتصادی حالات اور عوام الناس کی گھریلو مشکلات اور مصائب میں شاید پہلے سے بھی اضافہ ہو گیا۔ گزشتہ اور رواں سال کے بجٹ میں کچھ اس قسم کا فرق رہا کہ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے پیش کردہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ تو انکی توقعات کے مطابق تھا اور نہ ہی وطن عزیز کی اقتصادی صورتحال ہی اتنی قابل رشک تھی کہ اجرتوں میں معقول اضافہ کیا جا سکے۔ اسکے باوجود رواں سال کے وفاقی بجٹ میں نہ صرف مرکز بلکہ صوبائی حکومتوں نے بھی 10 سے 15 فیصد اضافہ کر دیا اور یہ خوش آئند بات تو ہے کہ اضافہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں میں بھی کر دیا گیا۔
اس معاملے میں کم از کم مسلم لیگ (ن) سے تو یہ توقع تھی کہ وہ حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اپناتے ہوئے اُجرتوں میں اضافے کے وقت یہ بات ذہن میں رکھتی کہ ریلیف تو 18کروڑ آبادی میں سے صرف چند لاکھ ملازمین اور انکے کنبوں کو دیا گیا ہے اور اگرچہ بجٹ ساز حکام نے تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد اضافے کو غیر سرکاری ملازمین پر بھی عائد کیا ہے لیکن پرائیویٹ اداروں اور محکموں کے مالکان کو بھلا حکومت اُجرتیں بڑھانے پر مجبور کر سکتی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ چھوٹے کاروباری طبقہ اور خصوصاً محلوں اور گلی کوچوں کے دکاندار تو میڈیا میں تنخواہوں میں اضافے کی خبریں پڑھ کر کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں خود ہی فوری طور پر بڑھا دیتے ہیں اور انہیں یہ بات سمجھ ہی نہیں آ سکتی کہ نجی اور سرکاری ملازمین کے ذرائع آمدن میں فرق کیا ہے اور آمدنی میں اضافے سے حقیقی معنوں میں مستفید کون لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر اور روزانہ اُجرت پر کام کرنیوالے افراد کی آمدنی بڑھانے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے اقدام میں اس حقیقت کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین تو عمر رسیدہ ہوتے ہیں اور اگر یہ دیکھا جائے کہ ریٹائرڈ افراد کی کچھ تعداد شاید سرکاری خرچے پر علاج کی سہولت میسر ہوتی ہے لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج اور لیبارٹریز ٹیسٹ وغیرہ کی سہولتیں ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہوتیں بلکہ ڈاکٹروں کے نسخوں میں تجویز کردہ مہنگی ادویات کے بارے میں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اس وقت دستیاب نہیں اور سستی اور غیر مؤثر دوائیں دی جاتی ہیں۔ گزشتہ سال جون میں جب شریف برادران نے اقتدار سنبھالا تو بعض باشعور اصحاب اور خصوصاً اقتصادی ماہرین نے انہیں مذکورہ بالا مسائل و مشکلات کا حل یہ تلاش کیا کہ وفاقی حکومت سابقہ حکمران اتحاد کی ناقص معاشی اور معاشرتی پالیسیاں ترک کر کے ایسا لائحہ عمل اختیار کرے کہ جس سے تنخواہوں میں اضافے سے مستفید ہونے والے محض چند لاکھ سرکاری ملازمین ہی کو ریلیف نہ دی جائے بلکہ دیگر کروڑوں ہم وطنوں کو بھی استفادے کا موقع دیا جائے۔ کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں پر سبسڈی وسیع پیمانے پر دی جائے جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ مذکورہ بالا اشیاء کی قیمتیں اگر خاطر خواہ حد تک کم نہ ہوئیں تو کم از استحکام پذیر تو ضرور رہیں گی اور اس طریقہ کار سے نہ صرف سرکاری دفاتر کے چند لاکھ ملازمین اور انکے گھرانے ہی مستفید نہیں ہو سکیں گے بلکہ اشیائے خوردنی میں دھڑا دھڑ اضافے کی روک تھام ہو گئی تو پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین بلکہ بیروزگار لوگ گزارہ چلائیں گے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ وزیراعظم کے اکنامک منیجر صاحبان سبسڈی کی پالیسی اختیار کرنے سے انہیں کیوں روکتے ہیں ۔
حکومت سبسڈی کی حکمتِ عملی سے گریزاں کیوں؟
Jul 02, 2014