ماضی میں بھارتی ایجنسیوں کی خفیہ تخریب کاری ، فوجی مداخلت اور اپنوں کی غفلت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنی۔ بلا شبہ سقوط ڈھاکہ کے بعد موجودہ دور میں کراچی بیرونی ایجنسیوں کی تخریب کاری اور سبوتاژ کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے ۔کاسموپولیٹن کراچی جسے پاکستان کا پہلا وفاقی دارلحکومت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ایک تسلسل سے جاری مخصوص مفادات کی نہ ختم ہونیوالی بیرونی مداخلت کے سبب پیدا ہونیوالی سیاسی و سماجی خلیج کے باوجود آج بھی منی پاکستان کی شکل میں تحریک پاکستان کے وجدان و جذب و کمال کی ہی نمائندگی کرتا ہے ۔ کراچی وہ شہر ہے جہاں نہ صرف اُردو بولنے والے اور پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی عوام بود و باش اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے لاکھوں بنگالیوں نے بھی اِسے اپنا وطن بنایا ہے۔ کراچی ،سندھ و بلوچستان ہی نہیں بلکہ پنجاب ، خیبر پختون خواہ ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کیلئے بھی لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ گوادر سے شاہراہ ریشم تک پاکستان چین تجارتی راہداری کا نیا منصوبہ جسے چاروں صوبوں کے اہم شہروں سے لنک روڈز کے ذریعے ملا کر پاکستانی عوام کیلئے متبادل لائف لائن کی حیثیت بھی دی جا سکتی ہے۔ بہرحال پُر عزم پاکستان خطے میں بھارتی بالادستی کے عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ کراچی کی اِسٹریٹیجک حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت ایجنسیاں خفیہ تخریب کاری اور سبو تاژ کے ذریعے پاکستان میں اندرونی سیاسی و سماجی خلفشار پیدا کرنے کیلئے کراچی کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں ۔یہ درست ہے کہ بھارتی ایجنسیاں اِسی منظم تخریب کاری کے ذریعے سکم، بھوٹان ، نیپال اور بنگلہ دیش میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں کامیابی سے ضرور ہمکنار ہوئی ہیں لیکن پاکستان اور سری لنکا میں ایک تسلسل سے پیسہ اور تخریبی عناصر کو استعمال کرنے کے باوجود بھارتی ایجنسیاں جذب و کمال رکھنے والے پاکستانیوں کی جدوجہد کے سامنے اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل میں ناکام نظر آتی ہیں۔
درج بالا منظر نامے میں خطے میں بالادستی کیلئے بھارتی ایجنسیوں کی خفیہ تخریب کاری مہم کا طریقہ واردات ایک جیسا ہی ہے یعنی اہم سیاسی و سماجی شخصیتوں کو اپنا بنانے کیلئے فنڈ مہیا کرنا ، اِن شخصیتوں کے قابل اعتماد کارکنوں کو اسلحہ فراہم کرنا اور دہشت گردی و تخریب کاری کی خفیہ تربیت کا بندوبست کرنا ۔ گذشتہ ماہ کراچی میں دہشت گردوں کے چند خفیہ سہولت کاروں تک پہنچنے اور ابتدائی انٹیروگیشن کے بعد سینئر ایس پی محمد انور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے کچھ کارکنوں کو لندن میں مقیم ایم کیو ایم کی لیڈرشپ کی ایما پر دہلی بھیجا جا رہا ہے جہاں سے اُنہیں دیرہ دون میں تخریب کاری اور حساس اسلحہ کی تربیت دی جاتی ہے ۔ بہرحال سندھ کی ایک مقتدر سیاسی جماعت کے ٹاپ کے رہنما نے اِسے دیوانے کی بڑ سمجھا اور اِس مقتدر پولیس آفیسر کا اِس کیس سے ہی فوری تبادلہ کر دیا گیا ۔ کیا ملکی سلامتی کے پیش نظر حقائق تک پہنچے بغیر حساس قومی معاملات کو سیاسی مصلحتوں پر قربان کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ اِسی نوعیت کے سنجیدہ الزامات اب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی لندن کے ایک مقتدر صحافی نے اپنی حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بھارتی ایجنسیوں اور ایم کیو ایم پر لگائے ہیں۔ بھارتی ایجنسیاں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کس حد تک جا سکتی ہیں اِس کا اندازہ بھارتی ایکسٹرنل ایجنسی (Research & Analysis Wing) جسے عرف عام میں " را " کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کی باگ دوڑ براہ راست بھارتی وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے ، نے خطے میں چھوٹی ریاستوں کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کیلئے کیا کچھ کیا ہے، درج ذیل بحث سے بخوبی وضاحت ہو جاتی ہے۔ را نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سکم میں اندرونی خلفشار پیدا کرکے ریاست سکم کو بھارتی یونین میں شامل کرنے میں منفی کردار ادا کیا۔ نیپال میں مائو نواز گروپ میں بھارتی ہمنوا پیدا کرنے کیلئے بھاری رقومات تقسیم کی گئیں اور اُنہیں ڈیرہ دون میں چکراتہ کمانڈو بیس میں حساس اسلحہ کی تربیت دی گئی ۔ چین کیخلاف تبت میں اندرونی خلفشار پیدا کرنے کیلئے تبت کے کھمبا باغیوں کو تربیت دینے کیلئے بھی اِسی چکراتہ بیس کو استعمال کیا گیا ۔سری لنکا کے تامل دہشت گردوں نے بھی اِسی بیس میں تربیت حاصل کی تھی جبکہ بنگلہ دیش کی مکتی باہنی کے جنگجوئوں کو بھی اِسی بدنام زمانہ بیس جسے اسٹبلشمنٹ۔22 کے کوڈ نام سے یاد کیا جاتا ہے ، میں تربیت دی گئی۔ نیپال میں را کا کردار انتہائی غیر اخلاقی رہا جہاں را کے آپریٹر نیپالی بادشاہت کو اندرونی خلفشار سے دوچار کرنے کے باوجوداپنے عزائم حاصل کرنے میں ناکام رہے تو جس بہیمانہ انداز سے نیپال کے شاہ بریندرا اور کرائون پرنس ڈپیندرا کے درمیان اختلافات کو ہوا دیکر کرائون پرنس کے ہاتھوں شاہی خاندان کا قتل عام کرایا گیا ۔ ماڈرن دنیا میں جس کی مثال بہت کم ملتی ہے لیکن یہ را کے ظالمانہ طریق واردات کی اپنی مثال آپ ہے جس کی تصدیق شاہی دربار سے وابستہ ریاست نیپال کے سابق ملٹری سیکریٹری جنرل بائیک کمار شاہ نے اپنی کتاب میں کی ہے ۔
حیرت ہے کہ ہماری قومی سلامتی کے امور میں سیاسی مصلحتیں اِس حد تک غالب آ چکی ہیں کہ ہمارے غور و فکر کرنیوالے سیاسی ادارے اپنی حکمت و فراست کو استعمال کرنے کے بجائے بیرونی مقتدر ذرائع سے آنیوالی تحقیقی رپوٹس کے انتظار میں ہی لگے رہتے ہیں۔ ایگزیٹ ہائی پروفائل کیس میں بھی ایسے ہی ہوا ہے۔ بی بی سی کی تحقیقی رپورٹ کیمطابق کراچی میں مبینہ تخریب کاری اور دہشت گردی میں بھارتی را کے ملوث ہونے اور سہ جہتی طریقہ واردات کیمطابق ایم کیو ایم کی اہم شخصیتوں کو فنڈز مہیا کرنے، حساس اسلحہ کی فراہمی ، تخریب کاری اور سبوتاژ کی تربیت فراہم کرنے کے حوالے سے سنجیدہ نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
عجب بات ہے کہ الطاف حسین کو برطانوی شہریت ملی تو بھی اُنہوں نے صدقِ دل سے پاکستان آکر زمینی صورتحال کا مطالعہ کرنے کے بجائے جولائی 2001 میںبھارت کا دورہ کرنا کیوں مناسب خیال کیا اور نئی دہلی پہنچتے ہی اُنہوں نے بھارتی مقتدر سیاسی اور ریاستی رہنمائوں بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق وزیراعظم واجپائی و ڈپٹی وزیراعظم ایڈوانی سے والہانہ ملاقاتوں کے دوران نہ صرف پھولوں کے گلدستے پیش کئے۔ کراچی میں گذشتہ تقریباً ایک عشرے سے ایم کیو ایم کا گورنر براجمان ہے پھر الطاف حسین کے شدت پسندانہ بیانات کیا معنی رکھتے ہیں۔ کیا الطاف حسین نہیں جانتے کہ اِس نوعیت کے بیانات سے کراچی میں سیاسی خلفشار کو ہوا ملتی ہے۔ جبکہ جمہوری اداروں اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی آزادانہ طور پر متحرک ہیںتو پھر الطاف حسین آخری فتح سے کیا مفہوم ادا کرنا چاہتے ہیں اور پھر بھارتی ایجنسیوں اور سیاسی رہنمائوں سے دوستی کا کیا مطلب ہے ؟ بقول مرزا غالب ....... ؎
خطرہ ہے رشتۂ الفت رگِ گردن نہ ہو جائے
غرورِ دوستی آفت ہے تو دشمن نہ ہو جائے