چند دن پہلے تک پاکستان اور افغانستان کے بارڈر سے افغانی بغیر کسی ویزہ کے پاکستان میں آتے، جی چاہے تو واپس چلے جاتے نہیں تو یہیں آباد ہو جاتے تھے۔ روس اور افغانستان کی جنگ سے پہلے بھی لاکھوں افغانی مہاجر بن کر پاکستان آئے تھے۔ زیادہ تر افغانی پاکستان روزگار کی تلاش میں آتے، محنت مزدوری کرتے، تعمیرات میں حصہ لیتے اور کمائی کر کے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ یہ جس بھی جگہ جاتے وہاں کی مساجد میں قیام کرتے، علاقے کے لوگ انہیں وہاں کھانا فراہم کرتے، اکثر اوقات یہ مانگ کرکھاتے تھے۔ یہ اتنے مفلوک الحال ہوتے تھے کہ لوگ ان پر ترس کھاتے تھے۔ جب افغانی واپس جاتے تو لوگ ان کی خوب مدد کرتے تھے کہ ہمارے افغانی بھائی واپس خالی ہاتھ نہ جائیں اور یہ جاتے جاتے اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کو یہ تحفہ دیتے کہ انکے بچے اٹھا کر لے جاتے اور بیگار کیمپوں میں لے جا کر مشقت کرواتے تھے۔ ہمیں باہر نکلنے سے روکا جاتا تھا اور خوف زدہ کرنے کیلئے کہا جاتا تھا کہ باہر نکلے تو پٹھان اٹھا کر لے جائینگے۔ کئی افغانی اب بھی ہمارے علاقے میں آباد ہیں جن کی اب چوتھی نسل چل رہی ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان روزگار کی تلاش میں آتے تھے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اسکے بعد مہاجرین کی باری آتی ہے۔ پاکستان نے مہاجرین کو بائیں کھول کر خوش آمدید کہا، ان کو سر چھپانے کو جگہ دی اور انکی خاطر اپنی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا، لیکن افغان مہاجرین نے جواباً پاکستان کو تحفہ میں کیا دیا؟ یہ افغانی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں، پاکستان کے اندر پراپرٹی خریدتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کو پناہیں دیتے ہیں یہاں تک کہ بیرونی ایجنسیوں کے ہاتھوں پاکستان کیخلاف استعمال بھی ہوتے ہیں۔ سمگلنگ کرتے ہیں اور سمگلنگ کا مال پاکستانی مارکیٹوں میں بیچ کر خوب منافع کماتے ہیں۔ پاکستان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پاکستان کو گالی بھی دیتے ہیں منشیات جیسا زہر بھی پاکستان کے اندر انہیں کے ذریعے پھیلا جس نے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے اندر سترہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں جبکہ کل ملا کر ایک اندازے کیمطابق انکی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے جن میں سے آدھے سے زیادہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ کئی افغان مہاجرین کودہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے، بیرونی ایجنسیوں سے فنڈز لینے اور ان کی مدد کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیاجس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ انہیں اب واپس انکے وطن بھیجنا ضروری ہو گیا ہے۔ شناختی کارڈز والا معاملہ جسے ابھی اٹھایا گیا ہے، اس فیصلے سے پہلے تک افغانی اپنی شناخت کو چھپاتے نہیں تھے۔ چند سال پہلے لاہور کی مشہور مارکیٹ میں شاپنگ کرتے ہوئے ایک افغانی جنہیں ہم پاکستانی پٹھان سمجھتے تھے بڑے فخر سے ایک گاہک کو بتا رہا تھا میرے پاس دو شناختی کارڈ ہیں ایک پاکستانی اور ایک افغانی اور وہ گاہک اس بات کو انجوائے کر رہا تھا اس بات سے بے خبر کہ یہ جرم ہے۔ اس وقت پاکستان کے اندر تمام بڑی مارکیٹوں میں افغانیوں کے بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ پنجاب کی صورتحال یہ ہے کہ ایک موچی سے لیکر شاپنگ مالز کے مالکان تک افغانی ہیں جنہیں ہم پاکستانی پٹھان سمجھتے ہیں۔ پنجابیوں کی جگہ افغانی پٹھانوں نے ہماری مارکیٹوں پر قبضہ شروع کر دیا ہے اور انکے اس عمل اور تعداد میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو تعمیر شدہ شاپنگ مالز اور دکانوں کے بیشتر مالکان یہی افغانی ہیں۔ یہاں انکی جائیداد کی خرید و فروخت پر کوئی پابندی نہیں۔ مارکیٹوں میں سمگلنگ کا مال سر عام بکتا ہے۔ اس طرح کی صورت حال دوسرے صوبوں کی بھی ہے۔
افغانیوں نے ہمارے ملک کے معاشی ڈھانچے میں بڑی خاموش تبدیلیاں کی ہیں۔ بیرونی ممالک سے سمگلنگ کا مال پاکستان کی مارکیٹوں میں پھیلاتے ہیں۔ جو مال بظاہر افغانستان کیلئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد کیا جاتا ہے۔ اسے مختلف ذرائع اور طریقوں سے واپس پاکستان سمگل کر دیا جاتا ہے۔ اگر افغانستان میں درآمد کی جانیوالی اشیاء کا تفصیلاً جائزہ لیا جائے تو حیرانی ہوتی ہے کہ کئی ایسی اشیاء بھی درآمدی لسٹ میں شامل ہیں جو افغانستان میں استعمال ہی نہیں ہوتیں۔ ایسی ساری اشیاء پاکستان سمگل کر دی جاتی ہیں۔ یہاں تو کنٹینرز کے کنٹینرز غائب ہو جاتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ درآمدی مال پر افغانستان کوئی اضافی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ پہلے یہ مال جس میں کپڑے اور الیکٹرانکس کی اشیائ، برسن، صابن، شیمپو، اور بے شمار ضروریات زندگی کی چیزیں، جن کی فہرست طویل ہے، شامل ہیں باڑہ مارکیٹوں میں دستیاب ہوا کرتا تھا لیکن اب تمام بڑی چھوٹی مارکیٹوں میں موجود ہوتا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے اسے قانونی تو بنایا گیا ہے لیکن ٹنوں مال ہے جو افغانستان کی ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے یہ مال واپس پاکستان کن ذرائع سے آتا ہے ارباب اختیار کو اس پر سوچنے اور ٹھوس اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔سمگلنگ کا مسئلہ اور افغانیوں کا پاکستان کی مارکیٹوں پر قبضہ یہ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور ہماری معیشت کیلئے سم قاتل، جہاں دہشتگردی اور دوسرے معاشی اور معاشرتی مسائل میں افغانستان نے ہمیں الجھایا ہے وہاں ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنے کے ایک منظم سازش پر بھی عمل پیرا ہے۔ افغان مہاجرین نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ افغانستان آہستہ آہستہ ہمیں نگل رہا ہے۔گزشتہ دنوں پچاس سے زائد افغانیوں اور افغان انٹیلی جنس کے افسر کی گرفتاری بھی اس بات کی تصدیق کیلئے کافی ہے کہ اب یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہونا چاہیے اور افغان مہاجرین کو باعزت طور پر ان کے اپنے وطن بھجوا دینا چاہیے ورنہ پاکستان دہشت گردی اور سمگلنگ کی خوفناک دلدل سے کبھی باہر نہیں نکل سکے گا۔