پاناما،پگڑی مکافات عمل

”ایک ویران جگہ پر واقع کھنڈر نما مکان سے 19 نومبر 2011ءکو ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا جو اس کمرے میں تقریباً پچھلے پانچ یا چھے ماہ سے چھپا ہوا تھا وہ شدید زخمی اور بیمار تھا کمرے کی حالت اتنی خستہ تھی کہ اس میں نہ تو روشنی کا مناسب انتظام تھا اور نہ ہی تازہ ہوا کا راستہ۔ یہاں تک کہ باتھ روم کی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ اس شخص کا کھانا پینا‘ سونا جاگنا اور حوائج ضروریہ وغیرہ سب کچھ اسی کمرے کی چار دیواری کے اندر محدود تھی۔ جب اس شخص کو گرفتار کیا گیا تو اس کی حالت دیکھ کر لگتا تھا وہ کئی دنوں کا بھوکا پیاسا ہے اور کئی ہفتوں سے نہایا بھی نہیں ہے۔ اس کمرے میں پڑا میٹرس، تکیہ اور کمبل اس قدرگندے اور بدبودار تھے کہ انہیں استعمال کرنا تو دور کی بات دیکھ کر بھی گھن آ رہی تھی۔ گندے اور بدبودار کمبل میں لپٹا ہوا جو شخص گرفتار ہوا وہ شخص کوئی عام آدمی نہیں تھا بلکہ کچھ عرصے پہلے تک اُس کا شمار دنیا کے چند بااثر اور امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ انتہائی آسائش کی زندگی گزارتا تھا اور اپنی عیاشیوں پر کروڑوں ڈالرز کچھ سیکنڈ میں ہی خرچ کر دیتا تھا۔ ایک بار لندن میں وہ اپنی کار میں سفر کر رہا تھا‘ سفر کے دوران اُسے شمالی لندن کا ایک خوب صورت گھر پسند آ گیا اور اس نے گھر خریدنے کا فیصلہ کر لیا، گھر کا مالک گھر بیچنے کو تیار نہیں تھا لیکن اس نے ضد میں آ کر گھر کی دگنی قیمت ادا کر کے وہیں کھڑے کھڑے ایک کروڑ برٹش پاﺅنڈز کا وہ گھر خرید لیا جس کی قیمت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ روپے بنتی ہے۔ 2009ءمیں اس نے اپنی 37 ویں سالگرہ منائی جس میں دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں نے شرکت کی۔ روس کے البانین ٹائیکون، سونے کی کانوں کے مالک پیٹرمنک اور مناکو کا شہزادہ البرٹ جیسی دنیا بھر کی مشہور شخصیات نے شرکت کی اور یہ اب تک کی دنیا کی مہنگی ترین سالگرہ شمار کی جاتی ہے۔ یہ شخص انتہائی مہنگی پینٹنگز خریدنے کا شیدائی تھا اس نے اربوں ڈالرز مالیت کی پینٹنگز کو اپنے محل کی زینت بنایا ہوا تھا۔ شعیب تنولی داستانِ طرب بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں: ”2006ءمیں اسے اسرائیلی اداکارہ اورلے سے عشق ہو گیا اور اس نے اسے اپنی محبوبہ بنانے کیلئے اسکے گرد دولت کے انبار لگا دیئے۔ چنانچہ اورلے اس کی گرل فرینڈ بن گئی اور یہ دنیا کی مہنگی ترین گرل فرینڈ تھی۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا وہ بہترین دوست تھا اور برطانوی شاہی خاندان اسے کئی بار اسے بکنگھم پیلس اور ونسلے کیسل میں لنچ اور ڈنر دیئے تھے یہ لندن اور پیرس میں پلے بوائے زندگی گزارتا، وہ دنیا جہاں کے قانون توڑنے میں بڑا فخر محسوس کرتا تھا اس نے ایک بار پیرس کی شاہراہ پر ایک سو تیس میل فی گھنٹے کی رفتار سے گاڑی چلا کر یورپی دنیا کو حیران کر دیا اور پیرس کی سٹی حکومت بھرپور کوشش کے باوجود اس کا چالان تک نہ کر سکی۔ اپنے ملک کی انوسٹمنٹ اتھارٹی کا یہ شخص سربراہ تھا اور یہ اتھارٹی اتنی طاقت ور تھی کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت 10 بلین ڈالرز تک کی سرمایہ کاری کر سکتی تھی۔ ایسی شان و شوکت سے زندگی گزارنے والا شخص جو بدبودار کمرے میں بدبودار کمبل میں لپٹا گرفتار ہوا وہ سیف الاسلام تھا۔ دنیا کے تیسرے نمبر پر تیل سے مالا مال ملک لیبیا کے سابق حکمران کرنل قذافی کا بیٹا، قذافی کا جانشین اور لیبیا کا ولی عہد۔ یہ اپنے وقت میں لیبیا کا دوسرا بااثر ترین آدمی، یہ اتنا بااثر اور طاقتور تھا کہ کرنل قذافی کو ایٹمی پروگرام ترک کرنے کیلئے بھی اسی نے قائل کیا تھا۔ وہی سیف الاسلام تھا جس کا ایک قدم لیبیا میں تو دوسرا لندن یا پیرس میں ہوتا تھا۔ جس کیلئے پیرس کی بڑی بڑی کمپنیاں خاص قسم کے خصوصی پرفیومز تیار کرتی تھیں۔ پھرسیف الاسلام پلک جھپکتے ہی عرش سے فرش پر آ گیا اور بادشاہ سے فقیر ہو گیا ۔کیونکہ وہ لوگ جو خدا کو بھول جاتے ہیں اور خود کو خدا تصور کرنے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں پر ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ ایسے حکمران جو اقتدار کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اور اقتدار کے نشے میں بہک کر یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے اقتدار کا سورج کبھی غروب ہونے والا نہیں اور انکے مقدر کا ستارہ ہمیشہ ہی چمکتا رہے گا تو ایسے حکمرانوں سے سیف الاسلام کی کہانی چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہے کہ عوام کا اعتماد کھو دینے والے بے حس اور خود کو خدا تصور کرنے والے حکمرانوں کا ایک نہ ایک دن ایسا ہی دردناک اور بھیانک انجام ہوتا ہے۔
سیف الاسلام چھ سال کی قید کے بعد کچھ عرصہ قبل جیل سے اس شرط پر رہا ہوا کہ وہ ملک میں امن کے قیام کےلئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ سیف الاسلام عالمی عدالت کو بھی مطلوب تھا اس نے بھی اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ گویا آزمائش جاری ہے۔“
کرنل معمر قذافی‘ ان کے پارٹی لیڈروں اور اولاد کا طمطراق اور طنطنہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا ہمارے حکمرانوں‘ ان کے ساتھیوں اور اولاد کا ہے۔ کرنل قذافی اور سیف الاسلام کے خلاف پارٹی لیڈر‘ رہنما اور وزرائے کرام کوئی بات سننے اور برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ جب قذافی کے اقتدارکا آفتاب جگمگا رہاتھا، جہاں قذافی اور ان کی اولاد کا پسینہ گرتا وہاں وزرا،بیوروکریٹ، حواری اور درباری اپنا خون بہانے پر آمادہ نظر آتے تھے مگر جب تخت ڈگمگایا اور حکمرانی کا سفینہ ڈوبتے دیکھا توچھلانگیں لگا گئے۔ قذافی کے اشارہ¿ ابرو پر امریکہ و عرب کے خلاف مظاہرے شروع ہو جاتے تھے۔ مگر جب برے دن آئے۔ کرنل قذافی قتل اور ان کا خاندان دربدر ہوا۔ سیف الاسلام بل میں گھس کر زندگی کے دن گن رہے تھے تو ان کے جانثار کسی اور کے جانثار بن چکے تھے۔ عوامی لیڈر‘ عوام کے کام آتے اور عوام کے دل میں زندہ رہتے ہیں۔ عوام کو شکلوں صورتوں سے پیار نہیں‘ وہ لیڈروں کی کارکردگی ،کمٹمنٹ اور خلوص دیکھ کر اپنے رویوں کا اظہار کرتے ہیں۔ قائد جیسا بااصول لیڈر ہو تو قوم یکجا اور اور یکجہت ہو کر اس کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔ جینوئن لیڈر عوام میں سے ہوتا ہے اور اس کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں جو اسے مضبوط و مستحکم رکھتی ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اورمیاں محمد نوازشریف میں ایک قدر مشترک ہے۔ دونوں عوام سے نکل کر لیڈر نہیں بنے۔ ان کو لیڈر بنا کر عوام میں لایا گیا۔ دونوں نے جمہوریت کو اپنے رنگ میں رنگنے اور اپنے ڈھنگ سے چلانے کی کوشش کی۔ قائداعظم قوم کے متفقہ اور مشترکہ لیڈر تھے۔ بھٹو اور نوازشریف نے اپنے اپنے دور میں بڑی شہرت پائی مگر ایک مخصوص طبقے کے دل عزیز رہے۔ جہاں ان کو بے پناہ چاہنے والے ہیں وہیں انتہائی نفرت کرنے والے بھی ہیں۔ بھٹو کو جمہوریت اجل کے منہ میں لے گئی۔ انہیں اپنی اصلاح کا موقع نہ مل سکا۔
نوازشریف موت کی دہلیز سے واپس آئے۔ انہیں نہ صرف اصلاح کا موقع ملا بلکہ تیسری بار اقتدار بھی ملا۔ مگر اپنی اصلاح تو درکنار‘ اپنے اوپر جو بیتی اس سے بھی سبق حاصل نہیں کیا۔ ان کی سیاسی پرورش فوج کے گملے میں ہوئی،بھٹو سکندر مرزا کی دریافت تھے۔ (جاری)

صدر سکندر مرزا کی شاہنواز بھٹو سے دوستی تھی۔ دونوں شکار کھیل رہے تھے۔ سکندر مرزا نے پوچھا کہ زلفی کیا کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بیرسٹری کر کے پاکستان آئے تھے۔ وڈیرے اور نوابوں کے بچے جو کرتے ہیں وہی نوجوان بھٹو بھی کر رہا تھا۔ سکندر مرزا نے کہا کہ اسے وزیر بنا دیتے ہیں۔ دارالحکومت کراچی آئے تومتعلقہ حکام سے پوچھا، کوئی قلمدان خالی ہے؟ وزارت تجارت انہی دنوں وجود پا رہی تھی۔ سکندر مرزا نے بھٹو کو وزیر تجارت بنانے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو کو حلف کے لئے بلانا تھا۔ سینما میں فلم چل رہی تھی۔ اچانک فلم رک گئی۔ ناظرین اس افتاد پر پریشان اور سکرین پر یہ عبارت دیکھ کر حیران ہوئے ”ذوالفقار علی بھٹو فوراً ایوان صدر پہنچیں“۔ جنرل ضیاءحادثے میں مارے گئے تو ماڈل ٹا¶ن لاہور میں بھی کہرام مچا ہوا تھا۔ اس دور کے ڈپٹی کمشنراختر علی مونگاایڈووکیٹ اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں کہ نوجوان وزیراعلیٰ کے بارے میں یہ سوچ لیا گیا تھا کہ وہ بھی ضیاءالحق کے ساتھ تھے‘ تاہم وہ مری سے دستیاب ہوئے تو ماڈل ٹاﺅن شانت ہوگیا۔ سکندر مرزا بھٹو کے انکل تھے۔ ایوب خان نے سکندر مرزا کو بے آبرو کر کے نکال باہر کیا تو بھٹو صاحب نے ایوب خان کوڈیڈی بنا کر اپنی آبرو میں اضافہ کر لیا۔ بھٹو بڑے لیڈر تھے مگر جس طرح وہ سیاست میں وارد یا نازل ہوئے وہ ان کے جینوئن لیڈر بننے کی راہ میں رکاوٹ رہا۔ اسی کے باعث وہ قوم کے متفقہ لیڈر نہ بن سکے۔ یہی المیہ میاں نوازشریف کے ساتھ ہے۔ میاں صاحب سیاست میں جیسے بھی آئے‘ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر تیسری بار متمکن ہیں۔ وہ دو مرتبہ تو بھٹو کی نفرت کے ووٹ پر وزیراعظم بنے‘ تیسری مرتبہ ”باری معاہدے“ کے تحت اقتدار میں آئے۔ پی پی اور ن لیگ کی اعلیٰ ترین لیڈرشپ نے 90 کی دہائی میں قومی وسائل کے ساتھ کوئی خیر نہیں کی۔ دو دو اڑھائی اڑھائی سال میں جو کچھ ہواوہ ٹریلر تھا اب چار پانچ سال کی فل فلم چلی ہے تو قوم کے رہبر‘ رہنما اور اکابرین کا کردار مکمل طور پر قوم کے سامنے آ چکا ہے۔ جو بیجا اب اس کے کاٹنے کا وقت آ چکا ہے۔ یہ ان کو پتہ ہے کیا بیجا تھا۔ پاناما کیس اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے جا رہا ہے۔ اگر میاں نوازشریف اور ان کی اولاد نے کچھ نہیں کیا تو ان کا بال بھی بیکا نہیں ہو گا اگر کچھ کیا ہے تو بچنا ناممکن ہے۔
جے آئی ٹی میں جو سوال و جواب،طلبیاں اور پیشیاں ہو رہی ہیں ان پر مسلم لیگ ن کے وزراءاور لیڈران کرام جس شدید ردعمل کا اظہار‘ جے آئی ٹی کے خلاف میں کھلے‘ سپریم کورٹ اور فوج کے بارے میں دبے الفاظ استعمال کر رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ شریف خاندان نے بہت کچھ کیا ہے‘ جس کا حساب دینے پر تیار نہیں۔ خود وزیراعظم کی پریشانی کا انداز ان کے لندن میں بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں ان کی سمجھ میں آ رہا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کی سمجھ میں نہیں آرہا تو کیا قومے قصائی کی سمجھ میں آیا ہوگا؟ اگر وزیراعظم اپنی ذات تک سے وابستہ معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو ان کے مستقبل کے روشن چراغوں میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان میں کتنی روشنی بچی ہے۔ کیپٹن صفدر کو جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد نظریہ پاکستان خطرے میں نظر آیا۔ شنید ہے کہ انہوں نے اکثر سوالات پر کہا مجھے نہیں معلوم‘ مریم کو پتہ ہو گا۔ اس پر مریم کو طلب کیا جانا ہی تھا۔ ن لیگ کے ہاکس اس پر سیخ پا ہیں۔ کہتے ہیں کہ مریم کا فیصلے میں ذکر ہی نہیں۔ تو کیا رحمن ملک کا فیصلے میں ذکر ہے؟ مریم ملزم نہیں، ان کی گواہی مقصود ہے ۔بینظیر بھی بیٹیوں کی طرح بیٹی تھی جسے ن لیگ کی حکومت میں ”مدھولا“ جاتا تھا۔ شیخ رشید کی منافقت ملاحظہ فرمائیں دو روز قبل کہتے تھے مریم کو بلایا ہی جانا تھا کل کہا مریم قوم کی بیٹی ہے، جے آئی ٹی میں نہ بلایا جائے۔آج مشورہ دے رہے ہیںکہ مریم کو جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہونا چاہیے۔یہ شیخ عمران خان کے مشیر اعظم اور ایسے ہی مشوروں سے انہیں نوازتے ہیں۔
میاں نوازشریف اپنی صفائی دے رہے ہیں۔ جسے خود مسلم لیگ ن احتساب کی اعلیٰ مثال قرار دیتی ہے مگر جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ عمران خان جے آئی ٹی کے باہر اپنا زور لگا رہے ہیں۔ ان کو بھی لیگی لیڈر ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ مریم اورنگزیب نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ عمران خان کو پگڑیاں اچھالنے کی عادت ہے۔ اس پر فقط اتنا کہا جا سکتا ہے پگڑی سنبھال جٹا“۔ جاگ پنجابی جاگ، ہم نہیں کہتے۔
اگر کسی نے پانامہ کیس کا فیصلہ پڑھا ہو تو سارے کا سارا فیصلہ خلاف ہے۔ آخری پیراگراف میں‘ وزارت عظمیٰ بچ گئی۔ اب ان تین میں سے ایک جج بھی جسٹس آصف کھوسہ اور جسٹس گلزار کے فیصلے سے اتفاق کر لیتا ہے تو فیصلہ وہی رہے گا مگر آخری پیراگراف کے چند الفاظ تبدیل ہونگے۔ ہماری جوڈیشنری کی عمومی شہرت‘ روایت اور رویہ طاقتور کاساتھ دینے کا رہا ہے۔ آج اندازہ کر لیں طاقت کا مرکز کہاں ہے اس طاقت کے مرکز نے حکمران ایلیٹ کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ فوج کو جمہوریت سیاست اور سیاستدانوں کوئی پرخاش نہیں۔ جنرل راحیل شریف کے کرپشن کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی جو جنرل امجد شعیب جیسے ان کے استادوں کے مشورہ پر ادھورا رہ گیا تھا۔ بالفرض فیصلہ میاں صاحب کے خلاف آتا ہے تو بھی نیب وغیرہ میں ریفرنس دائر ہو گا۔ سپریم کورٹ کی صوابدید ہے کہ وہ ریفرنس کا حکم دیتے ہوئے انکی بطور وزیراعظم کی نااہلی کی سفارش کرے یا نہ کرے۔لگتا ہے اب واقعی انصاف ہو رہا ہے احتساب ہو رہا ہے مگرطاہرالقادری جے آئی ٹی کو ڈرامہ قرار دینے پر مُصر ہیں،یہ ان کا اٹکل پچو ہے یا یہ حقیقت ہے؟ اس پر دورائے ہو سکتی ہے مگر مکا فات عمل حقیقت ہے اور اس میں دوسری رائے کی گنجائش نہیں۔
مکافات عمل کیا ہے اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:
یہ ۶ جولائی 2012ہے،شہر احمد پور شرقیہ ہے۔ ایک دماغی ابنارمل آدمی، غلام عباس، کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کر کے پولیس سٹیشن لایا گیا۔ بعد ازاں،گاﺅں کی مسجد سے لاو¿ڈ سپیکر اعلان کیا گیاکہ اس آدمی نے توہینِ قرآن کی ہے اور وہ حوالات میں بند ہے۔ اس پہ گاو¿ں والے مشتعل ہو کے گھروں سے نکل آئے اور مرکزی لاہور کراچی ہائی وے بلاک کر دی۔ حوالات کے دروازے توڑ کر اس دماغی ابنارمل شخص کو نکال کے شاہراہ پر لایا گیا،اس پر پٹرول چھڑکااور اسے آگ لگا دی۔لگ بھگ دو ہزار کا ہجوم زندہ جلتے او ر چیختے چلاتے انسان کو وہاں کھڑا دیکھتا رہا اس دوران پتھر بھی مارے جاتے رہے۔سنگ باری کرنے اورتماشہ دیکھنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کواس نوجوان کی بے گناہی کا علم تھا۔اب اس واقعہ کو پورے پانچ سال گزر چکے ہیں مگر وہی گاﺅں ہے وہی مسجد ہے اور وہی شاہراہ ہے۔ چالیس ہزار لٹر پٹرول لیجاتا ٹرالر الٹ گیا۔ لوگوں کو مسجد کے لاو¿ڈ سپیکر سے لیک ہوتے پٹرول کی نوید سنائی گئی۔لوگ بھاگم بھاگ وہاں جاپہنچے۔ ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا ۔ آگ نے وہاں موجودہجوم کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پورے دو سو افراد عین اس جگہ جل کے راکھ ہو گئے جہاں غلام عباس کو پانچ سال پہلے زندہ جلایا گیا تھا۔اگر یہ اتفاق ہے تو بھی مکافات عمل کی اٹل حقیقت کا بیانیہ ہے۔
مریم نواز کہتی ہیں کہ فیصلہ عرش والے کا چلے گا۔اس کے فیصلے تو متقی و پرہیزگار بھی متحمل نہیں ہوسکتے،اللہ کے انصاف سے ڈریں،اللہ سے رحم کرم کی بھیک مانگیں۔اس کے فیصلے مکافات عمل کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن