مکرمی! ملک میں پانی کا شدید بحران، خصوصاً سندھ میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔ آٹا گوندھنے کے لئے پانی نہیں، جانور پیاسے مر رہے ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں کا انتباہ ہے کہ اگلے 25 سال بعد پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش میں گرم موسم بہت شدید ہوگا۔ اس ماحولیاتی تباہی کی چند اہم وجوہات میں سے صرف ایک وجہ پنجاب میں ہزاروں راجباہوں کے کنارے 20 سال قبل تک سرسبز شاداب درختوں سے مزین تھے اب یہ درخت غائب ہیں۔ کتنے درختوں کا نقصان ہوا ملاحظہ فرمائیں۔ ایک راجباہ کی لمبائی 50 سے 100 میل تک ایک میل میں 25 ایکڑ ہر ایکڑ دونوں کناروں پر موجود کم از کم 60 درخت ایک میل کے اندر 1500 درخت ہوئے۔ اوسط لمبائی ہر ایک راجباہ 75 میل تقریباً ہر راجباہ پر کل درخت ہوئے 112500 پنجاب میں کل راجباہوں کی تعدادایک اندازے کے مطابق 1000 ہے۔ ان راجباہوں کے کناروں پر موجود کل درخت ہوئے 112500000 ۔ بڑی مین نہریں ا س کے علاوہ ہیں۔ ایک درخت کی قیمت کم از کم ہوئی 50 ہزار (حالانکہ شیشم کے پرانے ایک درخت کی آجکل قیمت ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہے)۔ کل درخت جو نہروں کے کناروں سے چوری ہوئے ان کی قیمت ہوئی 5625000000 اربوں روپے کے یہ درخت افسر شاہی کی نذر ہو گئے۔ دیہی ترقی کے نام پر ان راجباﺅں کے کناروں پر موجود دیہات کا گندا پانی ان راجباﺅں میں ڈال دیا گیا۔ باقی کسر کیڑے مار ادویات کے استعمال نے پوری کر دی۔ ضرورت ہے کہ بڑے بڑے ہسپتال بنانے کی بجائے تھوڑی سی کوشش سے ان نہروں پر متعین بیلداروں کی تعیناتی یقینی بنائی جائے۔ شیشم‘ نیم‘ بیری‘ پھیلاہی‘ جامن‘ آم‘ کیکر‘ شہتوت‘ جند جیسے ماحول دوست نئے درخت باقاعدہ منصوبہ بندی سے لگائے جائیں اور ہر بیلدار اپنی ذمہ داری کے علاقہ میں ان درختوں کی حفاظت اور پرورش کا ذمہ دار ہو۔ مزیدبرآں نہروں کے کناروں پر موجود دیہات کا گندا پانی ان نہروں میں ڈالنا جرم قرار دیا جائے۔(محمد اعظم ملک بتی چوک شیخوپورہ)