ایک کتاب کی رونمائی

قائداعظم لائبریری لاہور کا اقبال ہال ہجوم سے کھچا کھچا بھرا ہوا تھا ۔ جہاں ممتاز صحافی اور شاعر جناب سعیدآسی صاحب کی شہرہ آفاق کتاب "تیری بکل دے وچ چور"کی تقریب رونمائی جاری تھی ۔سٹیج پرخورشید محمود قصوری ( بطور صدر مجلس ) منظور احمد وٹو ( بطور مہمان خصوصی )مجیب الرحمان شامی ‘ عطاالرحمان ‘ ڈاکٹرظہیر الدین بابر اور خود سعید آسی تشریف فرما تھے ۔ تقریب کاآغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جبکہ نعت رسول مقبول ﷺ پڑھنے کا اعزاز صوبیہ خان اور صبیح الحق بخاری نے حاصل کیا ۔ ممتاز صحافی اور چیف ایڈیٹر" نئی بات" عطاالرحمان نے کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا سعید آسی نے اپنے کالموں میں ہمیشہ حق اور سچ کی بات کی ہے ‘امیدکی جاسکتی ہے ان کی یہ کتاب بھی نئی نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی ۔ مجیب الرحمان نے کہا سعید آسی صاحب کا تعلق پاک پتن شہر سے ہے ‘ میرا ان کے ساتھ تعلق اسی دن سے قائم ہے جس دن انہوں نے صحافت میں پہلا قدم رکھا تھا ۔ ایسے دیانت دار صحافی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔ میں ان کی دیانتداری پر قسم کھا سکتا ہوں۔انہوںنے پورے وقار کے ساتھ زندگی گزاری ۔ہمیں فخر ہے کہ ہم سعید آسی کے کنبے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کالم نگار رﺅف طاہر نے کہا آج کے دور میں نوجوان کتاب سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔اس کے باوجود دور حاضر میں بہت سی کتابوں کا چرچا عام ہوا۔ سعید آسی کی کتاب کواگر ہوا کا تازہ جھونکا قرار دیاجائے تو غلط نہ ہوگا ۔یہ کتاب بطور خاص موجود دور میں بہترین رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔ مہمان خصوصی میاں منظور وٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ سعید آسی کی کتاب میں بے شمار چھپے ایسے گوشے بھی وا ہوئے ہیں جو نوجوان نسل کی رہنمائی کافریضہ انجام دینے کے لیے کافی ہیں ۔ کتاب کے مصنف سعید آسی کا کہنا تھا یہ تقریب ‘درحقیقت دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کاایک بہانہ ہے ۔یہ کتاب نوائے وقت میں شائع ہونے والے 2014ءسے 2017ءمیں میرے منتخب کالموں پر مشتمل ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ماہرین ادب و صحافت نے میری کتاب کو پذیرائی بخشی ۔ میرا قلم پاکستان کی سربلندی اور پاکستانی قوم کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے گا ۔میاں خورشید محمود قصوری نے صدار تی خطاب میں کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ سعید آسی نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔اس کی دیانت داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ یہ اس تقریب رونمائی کی مختصرسی روداد تھی ۔ جہاں تک سعید آسی کی تحریری اور تخلیقی صلاحیتوں کا تعلق ہے وہ ایک منجھے ہوئے رائٹر اور بات کی گہری میں اترکر دیکھنے والے صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنی صحافیانہ زندگی کا آغاز 1970ءکی دہائی میں کیا ‘ پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا مختلف اخبارات و جرائد میں صحافتی فرائض انجام دیتے ہوئے نوائے وقت میں آپہنچے جہاں اپنی بہترین خدمات اور صحافتی شعبے میں تجربے کی بنا پر آج نوائے وقت میں ایک اہم منصب پر متمکن ہیں۔ ان کا قلم بہترین تحریریں اور کالم اگلتا ہے ‘ وہ حکومتی اورانتظامی اُلجھے ہوئے معاملات کو نہایت آسان الفاظ میں اس طرح سمجھاتے ہیںجیسے کلاس میں استاد اپنے بچوںکو پڑھاتا ہے ۔ وہ معتبر صحافی اوربہترین استاد ہیں اور ہم جیسے کتنے ہی کالم نگار ان کی تحریروں کو پڑھ کر اپنے مشاہدات کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔ وہ چھ کتابیں کے مصنف ہیں جن میں پنجابی شاعری کے دو مجموعے "سوچ سمندر " اور "رمزاں"شامل ہیں جبکہ اردو شاعری کاایک مجموعہ "تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں "۔دو سفر نامے "آگے موڑ جدائی کا "اور اور "جزیرہ جزیرہ " شائع ہوکر ادبی و صحافتی حلقوں سے اپنی اہمیت تسلیم کروا چکے ہیں ۔ سعید آسی نے ہرقومی مسئلے پر قلم اٹھایااپنی کتاب میں کالاباغ ڈیم (جس کے نام سے بھی سندھ اور خیبر پختونخوامیں نفرت کے آلاﺅ بلند ہونے لگتے ہیں )لکھا صرف مجھے ہی نہیں پوری قوم کو کالا باغ ڈیم پر جاری قومی سیاسی قائدین کی منافقانہ اور مفاہمانہ سیاست سے بیزاری نظر آتی ہے ۔اصولوں کے ڈنکے بجانے والے عمران خان نے گزشتہ انتخابات کی مہم کے دوران کالاباغ ذیم تعمیر کو اپنے پارٹی منشور میں شامل کیا بلکہ ملتان کے جلسہ عام میں اس کا باضابطہ اعلان بھی کیا۔ خیبر پختونخوا میں جب انہیں حکمرانی کا مینڈنٹ ملا تو یہی سوچا جارہا تھا شاید اب کالا باغ ڈیم تعمیر ہوجائے گا اور وطن عزیز سیلاب جیسی آفات اور پانی کی کمیابی کے مسائل سے نکل جائے گا لیکن پرویز خٹک نے وزیراعلی کا منصب سنبھالتے ہی اپنا پہلا پالیسی بیان کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے کا جاری کیا تو عمران خان کی خاموشی نے ہماری غلط فہمی کو اسی وقت دور کردیا۔قصہ مختصر سعید آسی کی کتاب بے شمار ایسے چوروں کی بکل میں چھپے ہوئے سرکاری مال کو منظر عام پر لانے کی ایک کوشش ہے جو ہر دور میں کسی نہ کسی بہانے مراعات حاصل کرتے ہیںاور قومی خزانہ بھی جی بھر کے لوٹتے ہیں ۔ پھر بھی وہ پارسا کہلاتے ہیںاور اپنے دامن پر الزامات کی ایک چھینٹ بھی پڑنے نہیں دیتے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ سعید آسی کی کتاب موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بہترین رہنما کتاب ہے جسے سیاسیات کے طالب علموںکو ضرورپڑھنا چاہیئے ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...