”پانامہ“ سے زیادہ ہولناک مسئلہ ”سیاست“ کی غفلت سے قوم کی قیمتی متاع ”نئی پود“ جس میں بری طرح دھنس چکی ہے۔ پاکستان میں منشیات کا استعمال کتنا بڑا مسئلہ ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے دس سال میں دہشت گردی کے نتیجے میں قریب 60 ہزار افراد مارے گئے‘ لیکن اس سے چار گنا زیادہ تعداد میں پاکستان ہی میں ہر سال منشیات کی وجہ سے انسانی ہلاکتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ مشہور امریکی جریدے ”فارن پالیسی“ کی دنیا بھر میں منشیات کے استعمال سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 250000 افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 76 لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ 76 لاکھ لوگوں کی بڑی تعداد 24 سال سے کم عمر افراد کی ہے۔ پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ترجمان کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد ہیروئن اور شراب کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ ”چرس“ ہے جو ”تمباکو“ کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے پاکستان کے کئی بڑے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے جس سے اساتذہ اور والدین دونوں ہی پریشان ہیں۔ اکثر والدین تو اس وہ سے پریشان ہیں کہ کہیں ان کے بچے اس بری عادت میں مبتلا نہ ہو جائیں اور اکثر اپنے بچوں کے منشیات کے عادی ہو جاتے کی وجہ سے ذہنی تناﺅ کا شکار ہیں۔ لاہور کے تعلیمی اداروں میں منشیات جیسا زہر فروخت کرنے کا انکشاف اس وقت ہوا جب نجی یونیورسٹی کے دو طلبہ موت کی وادی میں چلے گئے۔ اگرچہ ورثاءنے کسی بھی قسم کی پولیس کارروائی سے انکار کر دیا تھا‘ تاہم پولیس نے خود سے تفتیش شروع کی تو ڈیفنس کے علاقے سے ایک طالبعلم کو حراست میں لے لیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حراست میں لئے افراد پولیس اہلکار نکلے۔ ملزم طالبعلم کا ایک ساتھی اہلکارکے ساتھ مل کر ”کوکین‘ چرس اور آئس“ مہیا کرتا تھا۔ سرکاری گرلز کالج میں ”نشہ آور چیونگم“ کی فروخت کا بھی انکشافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے ایوان بالا میں بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا معاملہ ایک غیر سرکاری تنظیم ساسی کی جانب سے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ بھی اٹھایا گیا۔ یہ بات کس حد تک درست ہے کہ تعلیمی اداروں میں ”منشیات“ کا استعمال عام ہے۔ اس بات میں ”صداقت“ کا تب علم ہوا جب پاکستان کی ایک نامور یونیورسٹی میں تعلیمی حاصل کرنے والے مشال (فرضی نام) نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ بتایا کہ وہ لمبے عرصے سے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں شراب اور چرس بآسانی یونیورسٹی میں مہیا کر دی جاتی ہے۔ مشال کا کہنا ہے کہ میں اس عادت کو چھوڑنا چاہتا ہوں مگر میرے دوست مجھے اس سے دور نہیں جانے دیتے۔ مشال کی طرح ہی دانیال (فرضی نام) بھی لاہور کے ایک کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب لاہور کی ایک مشہور یونیورسٹی میں پہنچا تو اس کو بھی چند دوستوں نے ”نشے“ کا عادی بنا دیا۔ پہلے چرس‘ پھر ہیروئن کی عادت پڑ گئی۔ متعدد تعلیمی اداروں میں سکیورٹی گارڈز جبکہ کچھ تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے چند ٹیکسی چلانے والے بھی اس دھندے میں ملوث ہیں۔ غیر سرکاری ادارے ”ساسی“ کی سربراہ کا کہنا ہے کہ 18 ماہ کے سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے بالعموم اور نجی تعلیمی اداروں کے بچے بالخصوص کسی نہ کسی صورت میں منشیات کے عادی ہیں جس کی شرح 43 سے 53 فیصد ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا غیرقانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 66 لاکھ ہے اور ان میں بھی سب سے بڑی تعداد 25 سے لیکر 39 برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا گروپ پندرہ سال سے لیکر چوبیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔ ان قریب سات ملین افراد میں سے بیالیس لاکھ ایسے ہیں جو مکمل طورپر نشے کے عادی ہیں۔ ”اینٹی نارکوٹکس فورس“ اس سال اب تک آٹھ سو ملین امریکی ڈالر سے زائد مالیت کی منشیات ضبط کر چکی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منشیات کے عادی افراد کیلئے ایک نجی بحالی مرکز چلانے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے ”ہمارے سینٹر میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سینٹر میں آنے والے زیادہ تر افراد 18 سے 25 سال تک کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیں جن کا تعلق امیرگھرانوں سے ہوتا ہے۔ والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے وقت دینے کے بجائے انہیں بے تحاشا پیسے تھما دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت‘ دہشت گردی‘ ناانصافی اور ملکی حالات بھی منشیات کے استعمال میں اضافے کے رجحان کے بڑے اسباب ہیں۔ منشیات کی اس لعنت سے بڑوں کیساتھ ساتھ پاکستان میں بہت چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ گھر کا سربراہ جب نشہ کرتا ہے تو اس کا پورا خاندان پیشہ ور گداگر بن جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیز منشیات استعمال کا آغاز چھوٹے نشوں سے ہوتا ہے جیسے سگریٹ‘ پان اور گٹکے وغیہ کا استعمال۔ انہی سے بعد میں افیون اور چرس جیسے نشوں کی لت پڑتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں جو نشہ آور اشیاءعام استعمال کی جاتی ہیں‘ ان میں شراب‘ ہیروئن‘ چرس‘ افیون‘ بھنگ کے علاوہ کیمیائی منشیات جیسے صمد بانڈ‘ شیشہ‘ نشہ آور ٹیکے اور سکون بخش ادویات سب سے نمایاں ہیں جن کے استعمال کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نشے جیسی لعنت سے بچانے کیلئے میدان عمل میں آئیں اور اپنے بچوں پہ کڑی نظر رکھیں تاکہ خاندان کسی بڑی اذیت کا سامنا کرنے سے بچا رہے۔