تنہائی میں سوچتا ہوں کاش نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان 34سالہ رفاقت ختم نہ ہوتی دونوں نے اکٹھے سیا سی زندگی کا سفر طے کرنے کے عہد و پیمان کئے اور نہ ہی ایک دوسرے سے الگ نہ ہونے کی قسمیں کھائیں لیکن چوہدری نثار علی خان کو مسلم لیگ (ن) کا دماغ سمجھا جاتا تھا نواز شریف 80فیصد فیصلے چوہدری نثار علی خان کی مرضی سے کرتے تھے لیکن سیاست اس قدر بے رحم ہے کہ بھائی کو بھائی سے الگ کر دیتی ہے دوست دوست کے درمیان فاصلے پیدا کر دیتی ہے ۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اقتدار کی خاطر بھائی نے بھائی کا سر قلم کر دیا آنکھیں نکلوا کر زندان میں ڈال دیا اگر آج کے دور میں دو دوستوں کی دوستی سیاست کی ’’قربان گاہ‘‘ پر چڑھ جائے تو حیران کن بات نہیں ۔ میاں شریف چوہدری نثار علی خان کو اپنا چوتھا بیٹا سمجھتے تھے وہ ان کی سیاسی بصیرت کے معترف تھے ، نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان یہ پہلی لڑائی نہیں تھی کہ دونوں کے راستے الگ ہو جائیں ۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کے درمیان ضیاالحق کے دور میں ’’ سیاسی دوستی‘‘ کا آغاز ہوا جس نے گھریلو تعلقات کی شکل اختیار کر لی یہ دوستی 34سال تک برقرار رہی جو چوہدری نثار علی خان کو پارٹی ٹکٹ نہ دینے پر ختم ہوگئی ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان کئی بار’’ جھگڑے اور ناراضی‘‘ ہوئی لیکن جب تک میاں شریف زندہ رہے ، آڑے آگئے کبھی بات نہیں بڑھنے دی ۔ چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف کا ’’سیاسی قبلہ‘‘ درست رکھنے کی کوشش کرتے جہاں وہ دیکھتے کہ میاں نواز شریف ان کی بات نہیں مان رہے تو وہ میاں شریف سے جا کر ان کی شکایت لگاتے جس کے بعد میاں شریف نواز شریف کو وہ بات کرنے کا حکم جاری کرتے جو وہ کرنے سے گریزاں ہوتے اگرچہ چوہدری نثار علی خان کی سب سے پہلے نواز شریف سے دوستی شروع ہوئی جس کی جگہ میاں شہباز شریف نے لے لی چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کے درمیان دوستی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور یہ کہا جانے لگا کہ چوہدری نثار علی خان نواز شریف سے زیادہ میاں شہباز شریف کے قریب ہیں ان کی میاں شہباز شریف سے دوستی ضرب المثل بن گئی یہ نثار شہباز دوستی ہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے جب چوہدری نثار علی خان 1985ء میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو ئے پورے حلقہ میں صرف دو گائوں میں بجلی تھی کوئی سڑک اور سکول نہیں تھا آج پورے حلقے میں بجلی ، سکول ، کالج اور ہسپتال کی سہولت موجود ہے ۔
میاں نواز شریف اپنی وزارت عظمیٰ میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کم کم ہی بلایا کرتے تھے بیشتر وزراء نے چوہدری نثار علی خان سے کہا کہ ’’آپ میاں نواز شریف سے کہیں کہ کابینہ کا اجلاس بلائیں اہم قومی مسائل کو زیر بحث لانا ہے‘‘ جب چوہدری نثار علی خان کے ایما پر کابینہ کا اجلاس بلا ہی لیا گیا تو جن وزراء کی درخواست پر اجلاس بلایا گیا انہوں نے عوام کو درپیش مسائل پر گفتگو کرنے کی بجائے میاں نواز شریف کی تعریف و توصیف بیان کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ’’خوشامد‘‘ کے پہاڑ کھڑے کردئیے توچوہدری نثار علی خان کی ’’ باد شاہ سلامت‘‘ کے ماحول میں برداشت جواب دے گئی تو انہوں نے کہا کہ ’’ میاں نواز شریف کی جس طرح خوشامد کی جارہی ہے اس کے بعد تو کابینہ میں خوشامد پر پابندی لگ جانی چاہیے جس پر میاں نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کو چٹ بھجوائی ’’چوہدری صاحب ! آپ مجھے rediculeکر رہے ہیں‘‘ یہ چٹ آج بھی چوہدری نثار علی خان کے پاس محفوظ ہے الغرض وفاقی کابینہ کا اجلاس بدمزگی سے اختتام پذیر ہوا نوبت چوہدری نثار علی خان کے استعفے تک جا پہنچی ۔ چوہدری نثار علی خان گھر جاکر بیٹھ گئے دوستوں نے صلح صفائی کرانے کی کوشش کی تو جھگڑا بڑھ گیا پھر معاملہ میاں شریف تک جا پہنچا جن کے ایک اشارے پر میاں نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان سے صلح کر لی کیونکہ بڑے میاں کا حکم تھا کہ چوہدری نثار علی خان کا موقف درست ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جب بھی میاں نواز شریف اور فوج کے درمیان تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی یہ چوہدری نثار علی خان ہی کی شخصیت تھی جس نے سول ملٹری تعلقات کار کو بہتر بنانے میں اپنے ’’عسکری پس منظر ‘ ‘ کو بروئے کار لایا جنرل آصف جنجوعہ کی موت کا الزام بوجوہ چوہدری نثار علی خان پر عائد کیا گیا اس کے لئے جنرل آصف نواز کے جسم کے ا عضا بیرون ملک بھجوائے گئے جب رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ ان کی موت زہر خورانی سے نہیں ہوئی تو چوہدری نثار علی خان اس کیس سے سرخرو ہو کر نکلے۔ چوہدری نثار علی خان اور جنرل آصف جنجوعہ کے درمیان تین نسلوں سے تعلقات تھے دلچپ امر یہ ہے کہ دونوں گائوں کا نام چکری ہے ایک چکری کہلاتا ہے جب کہ دوسراچکری راجگان لیکن جب جنرل آصف نواز نے نواز شریف کو آنکھیں دکھائیں تو چوہدری نثار علی خان نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو گئے اسی وجہ سے چوہدری نثار خان کو جنرل آصف نواز کی موت کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ۔اسی طرح جب آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل اسلم بیگ نے مشرق وسطیٰ کی جنگ کے بارے حکومت کی پالیسی کے خلاف بیان دیا تو یہ چوہدری نثار علی خان ہی تھے جنہوں نے جنرل اسلم بیگ کو آڑے ہاتھوں لیا ۔غلام اسحقٰ نے روئیداد خان کے ذریعے چوہدری نثار علی خان کو نواز شریف کو ہٹا کر انہیں وزیر اعظم بنانے کا پیغام بھجوایا یہ چوہدری نثار علی خان ہی تھے جنہوں یہ کہہ کر کہ’’ وہ نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے ‘‘ وزیر اعظم کی مسند کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ’’پرویزی مارشل لاء ‘‘ میں بڑے سے بڑا عہدہ ملنے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور نواز شریف کی ہدایت پر جنرل پرویز مشرف سے ملنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے برملا یہ کہا کہ’’ راجپوت کے خون میں بے وفائی نہیں‘‘ ۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت ختم کرنے کے لئے ایم کیو ایم نے چوہدری نثار علی خان سے رابطہ کیا لیکن چوہدری نثار علی خان وزیر اعظم بننے کا شوق پورا کرنے کے لئے ’’سیاسی ایڈونچر ‘‘ سے گریز کیا ۔ اب تو مسلم لیگ (ن) کے بعض زعما ء چوہدری نثار علی خان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ آئین میں 18ویں ترمیم کے مخالف تھے تاکہ نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم نہ بن سکیں دلوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک بار چوہدری نثار علی خان سے کہا کہ’’ اگر آپ نواز شریف سے بے فائی کر کے وزیر اعظم بن گئے تو میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں گا‘‘ تو وہ ناراض ہو گئے اور کہاکہ ’’آپ نے ایسا سوچا کیوں ؟ میرے خون میں بے وفائی نہیں ‘‘۔ جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا تو اعتزاز احسن نے چوہدری نثار علی خان کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا یہ چوہدری نثار علی خان ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کی خاطر اعتزاز احسن کی ہرزہ سرائی کا جواب نہیں دیا ۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف پارلیمنٹ پر حملہ آوروں کو ریاستی طاقت استعمال کر کے جی ٹی روڈ پر ہی روکنا چاہتے تھے لیکن نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کو طاقت کے استعمال سے روک دیا پھر ’’بلوائیوں ‘‘ نے پارلیمنٹ اوروزیر اعظم ہائوس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو یہ چوہدری نثار علی خان تھے جو پولیس کا مورال بلند کرنے کے لئے شاہراہ دستور پر آگئے اس روز پولیس کارروائی نہ کرتی تو بلوائی پارلیمنٹ ، وزیر اعظم ہائوس ، پاکستان ٹیلی ویژن اور پاک سیکریٹریٹ پر قبضہ کر لیتے نواز شریف نے تو اپنی الوداعی تقریر لکھوا دی تھی ۔ جو قوتیں نوازشریف حکومت کا خاتمہ کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے پنجاب ہائوس میں اسی کمرے میں چوہدری نثار علی خان سے رابطہ قائم کیا جہاں میاں نواز شریف اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد لوگوں سے ملتے رہے ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا جسے میاں نواز شریف نے مسترد کر دیا تھا انہوں نے استعفیٰ حکومت کی ناقص کارکردگی پر دیا تھا جو انہیں واپس لینے پر مجبور کر دیا گیا جب نواز شریف کی حکومت کے6 ماہ ہونے پر سملی ڈیم کے ریسٹ ہائوس میں نواز شریف ، شہباز شریف اور چوہدری نثارعلی خان کے درمیان میٹنگ ہوئی اس میٹنگ میں کوئی چوتھا شخص نہیں تھا۔تینوں نے حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا اس موقع چوہدری نثار علی خان نے میاں نواز شریف سے کہا کہ بھٹو خاندان موروثی سیاست کا پس منظر رکھتا ہے لیکن آج اس خاندان کا شیرازہ بکھر گیا ہے جب کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تیسری بار وزیر اعظم بنایا آپ خلق خدا کے لئے کچھ کر گزریں۔ دھرنے کے بعد دوسری میٹنگ ٹھنڈیانی میں ہوئی جو بے نتیجہ رہی اسی طرح دو روز تک مری میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ان ہی تین چار لیڈروں کی میٹنگ ہوئی لیکن میٹنگ میں طے پانے والے امور پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے جب چوہدری نثار علی خان نے اپنے زور بازو سے عمران خان کا دھرنا 2 ناکام بنایا تو میاں نواز شریف چوہدری نثار علی خان کے سامنے بچھے جاتے تھے حتی ٰکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ان کے بارے میں تعریفی کلمات ریکارڈ کرائے ۔ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان آخری بار جس میٹنگ میں صلح کرائی گئی اس میٹنگ کے ایک عینی شاہد کے مطابق ایسا دکھائی دیتا تھا میاں صاحب نے چوہدری نثار علی خان سے صلح کر کے احسان کیا ہے ۔ چوہدری نثار علی خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جو آخری تقریر کی اس کی گونج آج بھی سیاسی حلقوں میں سنائی دیتی ہے میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان رومانس کو ’’عاشق اورمعشوق‘‘ کا معاملہ قرار دیا جاتا تھا لیکن اب کی بار تعلقات ایسے بگڑے کہ 34سالہ رفاقت ختم کر دی گئی اگر میاں شہباز شریف کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے کہ میاں نواز شریف چوہدری نثار علی خان کو پارٹی ٹکٹ دینے پر آمادہ ہو گئے تھے تو وہ کون سی مجبوری تھی جس نے انہیں ٹکٹ نہ دینے پر مجبور کر دیا ۔ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان تعلقات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے کالم کی طوالت کی وجہ سے پھر کسی موقع پر اس موضوع پر قلم اٹھائوں گا۔ بہر حال میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان رومانس کا خاتمہ2018ء کا سب سے بڑا ’’سیاسی المیہ‘‘ ہے ۔