ٹیکسوں کا بوجھ، وزیراعظم کا عزم اورآرمی چیف کا موقف

Jul 02, 2019

اسد اللہ غالب

حالیہ بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ بائیو میٹرک اور ایمنسٹی کی تلوار الگ سروں پہ لٹکی ہوئی ہے اور وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس وہ ڈیٹا ہے جو پچھلی کسی حکومت کے پاس نہیں تھا اور چند روز میں لوگوں پر نوٹوں کی گولہ باری شروع ہو جائے گی۔ وزیراعظم اس وقت جو چاہے کر سکتے ہیں کیونکہ ایک تو خود آرمی چیف نے کہہ دیا کہ حکومت کے مشکل فیصلوں کو کامیاب بنانا ضروری ہے دوسری طرف شیخ رشید نے بھی قوم کویہ کہہ کر مزید خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب عمران کو آرمی کی مکمل حمایت بھی میسر ہے ۔ ان باتوں کا مطلب جاننے کے لئے کسی ڈکشنری کھولنے کی ضرورت نہیں۔ نہ کسی سقراط بقراط سے رجوع کی حاجت ہے کیونکہ عوام کے ساتھ جو کچھ ہونے جا رہا ہے ، وہ صاف ظاہر ہے۔
ایک زمانے میں چودھری پرویز الٰہی کے گھر میں مسلم لیگ ن کا بھاری اجتماع تھا۔ ان دنوں حکومت پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں تھی۔ اور ن لیگ تحریک نجات کے چکروں میں الجھی ہوئی تھی۔ سخت بے چارگی کی کیفیت تھی۔ اس اجتماع میں اچھرہ والے چودھری منیر نے میاں نواز شریف سے پوچھا کہ حکومت بنانے کے لئے تین الف میں سے کسی الف کی حمایت ضروری ہے۔ اللہ، امریکہ اور آرمی۔ یہ بات آج تک ایک محاورے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر یا تو خود فوج کی حکومت رہی ہے۔ ایوب خان‘ یحیٰی خان‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف۔ یہ تو آزادی کی تاریخ کا نصف عرصہ بنتا ہے اور اگر کوئی سول حکومت آئی تو بھی فوج کے تعاون اور رضا مندی بلکہ صوابدید سے۔ آج توخود حکمران پارٹی ہی کہہ رہی ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں تو اپوزیشن اس پر ضرور گرہ لگائے گی۔ فوج اور حکومت کو ایک پیج پر ہی ہونا چاہئے۔ نہ ہو تو یہ غیر آئینی بات ہو گی مگر اصل میں فوج اور قوم کو ایک پیج پر ہونا چاہئے۔ یہ سبق ہمیں اکہتر میں ملا جب مشرقی پاکستان کے عوام اپنے ملک کی افواج کے خلا ف مکتی با ہنی کی شکل میں نبرد آزما تھے اور اس کشا کش میں ملک دو لخت ہو گیا۔
آج ہمیں معاشی بحران کا ضرور سامنا ہے۔ اور یہ قائداعظم کی حکومت کو زیادہ سنگینی کے ساتھ درپیش تھا۔ جس کے پاس نہ دفتر تھے۔ نہ فرنیچر حتیٰ کہ کاغذوں کو لگانے والی پنیں بھی نہیں تھیں اور اعلیٰ ترین سول سرونٹ بھی مجبور تھے کہ کیکر کے کانٹوں کو پنوں کی جگہ استعمال کرتے تھے، ایوب خان کے تعلقات امریکہ سے بہت اچھے تھے۔،امریکی امداد کی بارش ہو رہی تھی مگر پھر امریکہ کے تیور بگڑے اور ایوب خان کو اپنی معیشت کا نوحہ ایک کتاب کی شکل میں لکھنا پڑا۔ جس رزق سے ا ٓتی ہو پرواز میں کوتاہی ۔ انگلش میںاس کا عنوان تھا: فرینڈز ناٹ ماسٹرز۔ بھٹو نے او آئی سی کا اجلاس بلایا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو اس کے بازو اس حد تک مروڑے گئے کہ اسے پنڈی کے راجہ بازار میں ایک امریکی اہل کار کا دھمکی آمیز خط پھاڑنا پڑااور امریکہ نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کے لئے پھانسی پر چڑھوادیا۔ ضیاالحق کو شروع میں وعظ کا شوق تھا۔ امریکہ نے اس کو شروع میں آ نکھیں دکھائیں مگر جلد ہی امریکہ کو روس کے مقابلے میں پاکستان کی ضرورت پڑ گئی اور پاکستان ساری دنیا کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ پشاور ایئر پورٹ پر ملک ملک کے حکمرانوں کے طیارے اترتے تھے اور ڈالروں سے بھرے ہوتے تھے مگر جونہی روس پاش پاش ہوا، ضیا لحق کا جہاز بھی پاش پاش ہو گیا۔ا س میں آئی ایس آئی کے سربراہ اور امریکی سفیر بھی شامل تھے۔ جنرل مشرف ابتدا میں امریکہ پر برسے۔ دو ہزار میں جنرل اسمبلی کے اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امریکہ سے شکوہ کیا کہ وہ تیسری دنیا کو دہشت گردی کا سرپرست کہتا ہے مگر انہی ممالک کی دولت لوٹنے والے آمروں اور معاشی دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دیتا ہے جس کی وجہ سے تیسری دنیا کے عوام غربت کا شکار ہو کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف حائل ہو جاتے ہیں۔ آج مشرف کے اسی بیانیے کی تکرار کی جا رہی ہے اور لٹیروں، ڈاکوئوں، چوروں، قرض خوروں کو لٹکانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو خالی خزانہ دیکھ کر گھبرا جاتی ہے ۔ مشرف نے اسی گھبراہٹ کا اظہار کیا تھا مگر جلد ہی نائن الیون ہو گیاا ور مشرف پر ڈالروں کی بارش ہونے لگی۔ آج ہمارے لئے معاشی بحالی کی ایک ا مید ہے اور وہ ہے سی پیک مگر اس کاذکر اذکار کم کم سننے میں آتا ہے جبکہ پچھلی حکومت اس کو گیم چینجر کہتی تھی اور اس کے ساتھ فوج بھی اسی کو معاشی نجات کا راستہ قرار دیتی تھی۔ مگر اب سوچ بدل گئی ہے۔ اور دولت اگلوانے کے لئے ریاستی طاقت کے استعمال کے اشارے مل رہے ہیں۔ شاید معاشی بحالی اور ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے آخری ترجیح یہی ہو مگر مجھے بڑے ادب سے اس تھیوری سے اختلاف ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوج، افغان عوام جنہوں نے اپنی ذہنی عداوت کا مظاہرہ ایک کرکٹ میچ کے دوران بھی کیا اور آئے روز ہماری سرحدوں کی پامالی کی صورت میں بھی یہ رویہ جاری ہے، افغانستان ہی میں بھارت کی موجودگی کئی خطرات کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ مشرقی سرحد پر تو بہتربرس سے جنگ کے بادل گرجتے رہے ہیں، کنٹرو ل لائن پر آئے روز کی گولہ باری، سیاچن پر انیس سو چوراسی سے بھارتی افواج کا جارحانہ قبضہ اور بھارت میںکسی بھی دہشت گردی کا الزام آئی ایس آئی پر اور اس کی آڑ میں کئی ابھی نندنوں کی ہماری سرحدوں میں دخل اندازی۔ مودی کی للکار کہ بلوچستان‘ گلگت بلتستان آزاد کشمیر کے عوام کو اسی طرح کے حقوق دلوائوں گا جیسے بھارتی عوام نے اکہتر میں بنگلہ دیش کے عوام کو دلوائے تھے۔ یہ صورت حال میرے خیال میں ملک کو درپیش معاشی بحران سے کئی سو گنا زیادہ سنگین ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے جی ایچ کیو نے معاشی چیلنج اور دفاعی خطرات کو ترازو میں ضرور تولا ہو گا اور ان کاجو بھی فیصلہ ہے وہ ملک کے حق میں مفید ثابت ہونا چاہئے مگر فوج کی طاقت بہر حال ملک دشمنوں کے خلاف مرکوز رہنی چاہئے نہ کہ اس کا نام لے کر ملک کے عوام کو ہراساں کیا جائے۔ اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جائیں۔ عوام تو اپنی فوج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور یہ محبت قائم و دائم رہنی چاہئے۔
اس وقت وزیر اعظم کے پاس عوام کا جو ڈیٹا بیس ہے وہ انتہائی ناقص ہے اور ایف بی آر نے حکومت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ڈیٹا بیس کو پیش نظر رکھا گیا تو پورے پاکستان کو سب جیل قرار دے کر عوام کو ان کے گھروں میں مجبوس کرنا پڑے گا کیونکہ ہماری جیلوں میں کروڑوں قیدیوں کے لئے گنجائش نہیں۔ ڈیٹا بیس میں ہر کسی کے اثاثوں کا اندراج قطعی طور پر غلط ہے اس لئے کم از کم فوج کو اس پس منظر میں حکومت کو احتیاط کا مشورہ دینا چاہئے۔
اس کے باوجود ہماری افواج ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے پرامید ہوں، تو یہ تجربہ کر لینے میں ہرج کیا ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ نوے فیصد عوام بجٹ کے مشکل فیصلوں سے تنگ ہیں اور اپو زیشن جسے بہر حال حکمران پارٹی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے وہ تو بجٹ کو مسترد کر چکی ہے تو قوم کے تمام طبقات سے مشکل فیصلوں کی تائید اور انہیں کامیاب بنانے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ میں بہتر سال کی عمر میں جبکہ نظر سے محروم ہوں، بلڈ پریشر اور معدے کے السر کی دوائیاں دن رات کھاتا ہوں اور آنکھوں کی سوزش دور کرنے کے لیے ہر ماہ مہنگا ترین انجیکشن لگوانا پڑتا ہے تو میرے ان اخراجات میں کئی سو گنا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ آمدنی کاکوئی ذریعہ باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ دوستوں رشتے داروں کے آگے ہاتھ پھیلائوں۔ مجھے تو اس بجٹ نے جیتے جی جہنم رسید کر دیا ہے۔

مزیدخبریں