موسیقی میرا ذریعہ معاش بھی ہے اور وجہ شہرت بھی،سیاست مڈل کلاس کو اسمبلیوں میں پہنچانے کے لئے شروع کی

سیف اللہ سپرا
جواد احمد ہمارے ملک کے معروف گلوکار ہیں جنہوں نے یونیورسٹی آف انجئینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے مکینکل انجئنرینگ کی ڈگری حاصل کی،موسیقی سے شغف کی بنا ء پر یونیورسٹی کی میوزیکل اور لٹریری سوسائٹی کی ہونے والی تقریبات میں حصہ لیتے رہے۔علی عظمت اور وہ موزیکل بینڈ جیوبیٹر کا حصہ رہے مگر بعد میں انہوں نے بطور سولو گلوکاراپنے آپ کو متعارف کرایا انہیں صوفی ازم کے حوالے سے گائے ہوئے گیت ’اللہ میرے دل کے اندر‘سے شہرت حاصل ہوئی اب تک ان کے گائے ہوئے گیتوں پر مشتمل 4البم لانچ ہوچکے ہیں جن میں بول تجھے کیا چاہیے،اچیاں مجاجاں والی، مہندی اور جند جان سونیے شامل ہیں۔جواد احمد نے صحت اور تعلیم کے حوالے سے بھی نمایاں خدمات دی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وزارت صحت حکومت پاکستان اور یونائیٹڈ نیشن نے ملک میں پولیو کمپین کے حوالے سے انہیں اپنا اعزازی سفیر مقرر کیا اس کے علاوہ جود احمد نے برٹش کونسل کے ترک نشہ پراجیکٹ کے لئے ایک گیت ’تم ابھی تو آکربیٹھے تھے‘ اور تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے ایک گیت ’تعلیم سب کے لئے‘گایا جن کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر انہوں نے تعلیم کے لئے ایک اور شہرہ آفاق گانا‘‘سنو بچو اٹھائو بستہ’’گایا۔ جواد احمد ملک کے واحدگلوکار ہیں جنہوں نے 2002ء میں افواج پاکستان کی مورال بوسٹنگ کے لئے ’ہر دم تیار‘جیسی ڈاکیو منٹری سیریز میں بری فوج کیلئے ’مٹی کے بیٹے‘۔بحری افواج کے لئے ’سمندر کی طاقت‘اور فضائی افواج کے لئے’ہوا کے شیر‘جیسے پروگرام کیے جواد احمد کے فن کی خوبی ایک یہ بھی ہے کہ ان کے گائے ہوئے گیتوں کے بول اور موسیقی وہ خود ہی ترتیب دیتے ہیں بطور موسیقار ان کی تین فلمیں موسی خان، میں اک دن لوٹ کے آوں گا اور ورثہ منظر عام پر آئیں۔جواد احمد کو گلوکاری کے فن میں خدمات پر لاتعداد سرکاری اور غیر سرکاری ایوارڈز سے نوازہ گیا جن میں حکومت پاکستان کی جانب سے 2004ء میں تمغہ امتیاز، 2006 میں ستارہ ایثار، 2016 میں ہیومن رائٹس ایوارڈ،پولیو ایوارڈ اور میوزک میں پی ٹی وی ایوارڈ اور انڈس میوزک ایوارڈ شامل ہیں۔2018ء میں جواد احمد نے اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور برابری پارٹی پاکستان کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی،گزشتہ دنوں جواد احمد کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں ان کی فنی اور سیاسی زندگی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی جس کے منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں:
جواد احمد نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فن موسیقی کی طرف ان کی رغبت بچپن ہی سے تھی اور وہ سلامت علی خان،امانت علی خان، مہدی حسن،طفیل نیازی،نورجہاں،کشور کمار، محمد رفیع، لتا منگیشکر،آشا بھونسلے،ایلوس پریسلے اور پنک فلائڈ کے قدردان تھے اور ان کے گائے ہوئے گیتوں کو سنتے تھے جس کے باعث فن موسیقی میں ان کا شوق بڑھا۔انہوں نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں ان کے گائے ہوئے گیتوں پر مشتمل موسیقی کا البم محبت اور انقلاب لانچ ہونے جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ایسے گیت بنائے جائیں جن کو آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر بھی سن سکیں ان کا کہنا تھا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں موسیقی چھوڑ دوں کیونکہ موسیقی میرا ذریعہ معاش بھی ہے اور میری وجہ شہرت بھی اور اس کی وجہ سے لوگ میری عزت بھی کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہم کہتے ہیں سیاست میں مڈل کلاس کو آنا چاہیے محنت کشوں کو آنا چاہیے نوجوانوںکو آنا چاہیے تو اس کے ساتھ لازمی عنصر یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنے کام نہیں چھوڑ سکیں گے ا ن کو اپنے کام کرنے پڑیں گے کیونکہ نہ تو یہ جاگیر دار ہیں اور نہ ہی سرمایہ داراور نہ ہی ان کا تعلق کسی مافیاز سے ہے ان کے کوئی بڑے کاروبار نہیں ہیں جہاں سے یہ پیسے کمائیں ،سیاست شوق کی خاطر نہ کہ پیسہ کمانے کی خاطر کریںان کاکہناتھا کہ آنے والے دنوں میں میں جو نغمات بنانے جارہا ہوں وہ اس عوام کے اندر خوشی کی لہردوڑائیں گے ،عنقریب میرا ایک گیت آرہا ہے جو میں نے نوجوانوں کے لئے گایا ہے اس کے ساتھ میں نے کچھ انقلابی گیت بھی بنائے ہیں اور ہاں میرا ایک پارٹی کے حوالے سے بھی گیت تیار ہے ۔کمرشل کام بھی میں کررہاہوں اور سیاسی کام بھی اور قومی گیت بھی بہت جلد آپ کو سننے کو ملیں گے ۔جواد احمدکا سیاسی ویژن کے حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت تک نہیں بدلے گا جب تک 99فی صد لوگ ایک فی صد کے سامنے کھڑے ہوکر الیکشن نہیں لڑیں گے اور اسمبلی میں جاکر اپنے لئے قانون سازی نہیں کریں گے۔،جواد احمد نے کہا ہے میں میوزک کی فیلڈ میں آیا ہی اس لئے تھا کہ سیاست میں حصہ لے سکوں اور لوگوں تک پہنچ سکوں اور اپنی بات لوگوں سے کر سکوں۔ میرے پہلے البم کا نام تھا بول تجھے کیا چاہیے؟ میرے کیریئر کا پہلا گانا تھا اللہ میرے دل کے اندر۔ جس میں امیر اور غریب میں فرق بتایا گیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی صبح سات بجے اٹھ کر فیکٹری میں جاتا ہے ٹھیلہ لگاتا ہے، اینٹیں اٹھاتا ہے، دفتر کا کام کرتا ہے، ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، مڈل کلاس سفید پوش ہے اور دیہات کا کسان مزدور جو صبح 6بجے کام شروع کردیتا ہے۔ ان سب کا پاکستان میں کوئی پرسان حال نہیں۔ ان کے بچے سکول نہیں جاتے ان کے بچے اور گھر والے علاج نہیں کروا سکتے۔ عمران خان کے بچے کھرب پتی ہیں اور لندن میں رہتے اور خود وہ 300 کنال میں رہتے ہیں۔عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتیں کم ازکم پندرہ ہزار تنخواہ کا اعلان کرتی ہیں اور ان پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ غریب آٹھ سے دس ہزار روپے پر بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ ان سے کہیں نا کہ یہ 15000روپے میں گزارہ کر کے دکھائیں۔ان پیسوں سے گھر کیسے چلتے ہیں انہیں کیا پتہ یہ تو مافیا سیاست کر رہے ہیں۔ اب تو لوگ عمران خان کے کسی وعدے پر یقین نہیں کرتے کیونکہ وہ یوٹرن لے لیتے ہیں۔ اس ملک میں غریب تو کیا مڈل کلاس بھی گھر نہیں بنا سکتا۔ لاہور میں 5 مرلہ ایک کروڑ یا غریب علاقوں میں پچاس لاکھ سے کم نہیں۔ حالت یہ ہے کہ آج جو نوجوان انجینئر بن کر نکلتا ہے اسے تیس سے پینتیس ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ یہ کس قسم کی ریاست مدینہ بنا رہے ہیں خود تو 300 کنال میں رہ رہے ہیں اور مزدور کو ماہانہ 15000 روپے پر بھی عمل درآمد نہ کروائیں۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے تحریک انصاف کیلئے، احسن اقبال نے مسلم لیگ ن کیلئے اور نذر گوندل کے بھائی ذوالفقار گوندل صاحب نے پیپلز پارٹی کو جوائن کرنے کیلئے کہا۔ لیکن میں نے ان میں سے کوئی پارٹی جوائن نہیں کی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ سب ایک جیسے ہیں اور یہ سب جاگیردار، سرمایہ دار اور مافیاز کی پارٹیاں ہیں یعنی ایک فیصد کی پارٹیاں ہیں جبکہ میری پارٹی برابری پارٹی پاکستان نوجوانوں، مڈل کلاس اور محنت کشوں کی پارٹی ہے۔ یعنی 99فیصد کی پارٹی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر کے انجینئرنگ کے شعبہ میں نہیں گیا۔ یہ میرا شعوری فیصلہ تھا۔سٹوڈنٹ لائف میں میں جیوپٹیر گروپ کے ساتھ گا تاتھا جس کے کافی ممبرز کو اس بات کا پہلے سے پتہ تھا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ ہم بہت زیادہ مصروف رہتے تھے بہت کام تھا اور جتنا کماتے تھے برابر ساتوں میں تقسیم کر لیتے تھے۔ میں سٹوڈنٹ لائف میں غلط بات برداشت نہیں کرتا تھا۔ مگر سیکھا ہے کہ برداشت کرنا اچھی بات ہے۔ اب غصہ کو کنٹرول کرتا ہوں اور نوجوانوں کو بھی کہتا ہوں کہ غصہ پر کنٹرول کریں۔
میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتا میری خواہش ہے کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو کوئی اور نوجوان وزیراعظم ہوگا۔ ہم اس ملک میں اقتدار میں آئیں گے تو ایمرجنسی لاگو کریں گے۔لوگوں کو تعلیم اور صحت ایک جیسی دینے کے لئے اور یہ کام ریاست کے ذریعے کریں گے۔ مافیاز، سیاستدانوں کی طرح نہیں کہ انویسٹمنٹ لاؤ انویسٹمنٹ ہوگی تو روزگار ملیں گے۔ ہم اس ملک کے امیروں سے کہیں گے کہ آپ نے 70 سالوں سے کروڑوں اربوں کمائے ہیں وہ واپس کریں۔ ہم ریاست کے ذریعے انڈسٹری لگائیں گے جب تک انڈسٹری نہیں لگے گی روزگار پیدا نہیں ہوں گے۔ یہ کام ہم ریڈیکل بنیادوں پر کریں گے۔ جبکہ عمران خان پانچ سال بعد بھی کہیں گے انویسٹمنٹ آ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ دار اپنے مزدور کے لئے قانون کیسے بنائیں گے؟ جاگیردار اپنے مزارعے ہاری کے لئے قانون کیسے بنائیں گے؟ پہلے مرحلے میں ہم اپنی شناخت کے لئے الیکشن کے ذریعے لوگوں میں گئے لوگوں نے بہت پذیرائی دی ہے۔ ووٹ نہیں ملے ہم ووٹ لینے بھی نہیں گئے تھے ہم لوگوں کو بتانے گئے تھے کہ ہم 99 فیصد کی پارٹی ہیں۔ اب ہم نے اپنے اگلے فیز پر کام شروع کردیا ہے۔ ہم ملک بھر میں تنظیم سازی کر رہے ہیں ہمارا کام تحریک انصاف آسان کر رہی ہے۔ ہم تھوڑے ہی دنوں میں نظر آنے لگیں گے۔

ای پیپر دی نیشن