موجودہ دور میں مہنگائی ریاست میں تین بڑی پارٹیوں کی آویزش اور عالمی حالات یہ چند موضوعات ہیں جس پر لوگ مسلسل لکھ رہے ہیں مگر جن کو ان میں سے کسی ایک موضوع پر نہ لکھنا ہو اس کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ کیا لکھے؟
موجودہ دور ایک تبدیلی کا دور ہے جس میں ہر موضوع چاہے وہ ادب ہو، کلچر ہو یا مذہبی مسئلہ ہو یا کوئی بھی انسانی مسئلہ انہی تین موضوعات سے جڑ جاتے ہیں۔ انسانی رویے اور فکر محدود ہو گئی ہے یا سوچ کی گرہیں نہیں کھل رہیں مگر زندگی تو وہی ہے اور اس نے ویسے ہی رہنا ہے اس میں انسان کی عادات اور افعال پہلے ہی طرح متحرک ہیں۔ لہٰذا لکھنے کیلئے انسانی فکر میں تغیرات کو نوٹ کرنا چاہیے۔ اک زمانہ تھا کہ سیاست اپنی جگہ چل رہی ہوتی تھی اور ادب اپنی جگہ۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ کلچرل تقریبات عام تھیں اور عالمی حالات کے پیش نظر بڑے بڑے ملکوں کی آویزش اور سوچنے والوں کی سوچیں کتابیں تحریر کراتی تھیں۔ بڑی بڑی فلمیں بنتی تھیں اور ان پر بڑے بڑے تکنیکی تبصرے بھی آتے تھے۔ یہ سب کچھ مل ملا کر ہی ایک صحت مند ماحول بنتا تھا جس میں سے صحت مند نتائج بھی برآمد ہوتے تھے۔ اور یہ زیادہ ماضی کی بات نہیں!اب اجتماعی صورتیں اگر سامنے نہیں تو انفرادی مشکلوں کا زمانہ ہے۔ پہلے روس اور امریکہ کی بات ہوتی تھی اب میڈیا پر پوٹن اور امریکی صدر ٹرمپ کی عادات و خصلت پر بات ہوتی ہے اور مکمل نہیں ادھوری ادھوری۔ ادھوری اس لیے کہ اس نے ابھی دیگرقسطوں میں بھی چلنا ہے ۔ ورلڈ وار سے زخم خوردہ تہذیب کولڈ وار تک آئی اور کولڈ وار کی بے برکتی نے اس صورتحال کو جنم دیا جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ چنانچہ اسے بے برکتی کا دور بھی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی صورتحال دنیا کی صورتِ حال سے مختلف نہیں ۔ ہو بھی نہیں سکتی کہ ہم کو انفرادی مسائل کے ہوتے ہوئے بھی دنیا میں ہی رہنا ہے۔ ڈالر جب بڑھتا ہے تو پوری دنیا متاثر ہو تی ہے یہ اور بات کہ پاکستان میں لوگ زیادہ متاثر ہوتے نظر آتے ہیں یا پاکستان جیسے ہی کم ترقی یافتہ دیگر ملکوں کے لوگ…لہٰذا اس صورتحال سے نکلنے کیلئے عالمی سطح پر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر جدوجہد کیلئے کوئی ایسا فورم نہیں جو آزادی سے عالمی مسائل کا جائزہ لیکر ذمہ داری کا تعین کرے اور حل دے۔ یو این او کی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ یہ ادارہ بھی عالمی انسانی فورم نہیں رہا بلکہ چند بڑی قوتوں کے زیر اثر ترجمانی تک محدود ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ چھوٹے ممالک اپنے انفرادی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کریں اور مسائل کو کم کرکے دنیا کو پرامن بنانے کے عمل میں جت جائیں۔ اس طریقے میں وقت بہت زیادہ درکار ہے اور کامیابی کے امکانات اگرچہ کم ہیں مگر ناپید نہیں۔ میڈیا کے ترقی یافتہ دور میں اس طریقے کو آزمانے میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ ہر شام کو ہر خطے کی خبر بہرحال انٹرنیشنل میڈیا کا حصہ بن ہی جاتی ہے۔ متعلقہ ملکوں کو بہرحال ترجیحات وضع کرنی ہو گی۔ اس میں دنیا کو پرامن بنانے والے یقینا یہ کر گزریں گے۔ اگرچہ ان کو دنیا کو بدصورت بنانے والوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑیگا جو ویسے بھی دنیا کر رہی ہے۔ اس طرح ایک تو چھوٹے ملکوں کے اندرونی مسائل کم ہونگے دوسرا عالمی مسائل بن جانیوالے ایشوز بھی کم ہونگے اور اس میں باقی دنیا اور ممالک کی شرکت بھی غیر موثر رہے گی۔یہ عالمی امن کو برقرار رکھنے کا ایک نیا اور نادر باب ہو گا جس سے عالمی امن کو لاحق خطرات بنیادی سطح پر کم ہو جائینگے اور اپنے ساتھ والے ممالک کو بھی غیر ضروری ٹینشن سے رہائی مل سکے گی۔اب ذرا پھر اپنے دیس میں کہ ہم کو یہاں سے آغاز کرنا ہے مگر صورتحال کا صحیح جائزہ لینا یا لینے کی کوشش کرنا ، صورتحال کو سمجھنے میں جان کھپانا بھی صورتحال سے نمٹنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔موجودہ حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ رہے یا نہ رہے ہر صورت میں ماضی کے طریقہ کار کو بدلنا ہے یہی وجہ ہے کہ پہلے حکومتیں اپنے عرصہ اقتدار کو پرامن بنانے کیلئے بھی کام کرتی تھیں اور دوبارہ آنے کیلئے کچھ اقدامات بھی کرتی تھیں مگر اس طرح کافی کام اکٹھا ہو گیاجو کسی ایک ایسی حکومت کو کرنا تھا جس کو اقتدار میں رہنے یا دوبارہ آنے کی کوئی جلدی نہیں۔ موجودہ حکومت کے سربراہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کو حکومت میں کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ ان کو اس میںدلچسپی لینی چاہیے کہ وہ جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ کوئی قلیل المدتی کام نہیں بلکہ اس کیلئے زیادہ مدت درکارہے۔صرف غیر ملکی دورے کرنا حکومت نہیں بلکہ اگر وہ اپنے افعال کو اپنی نیت اور منشور سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں تو کام کو ادھورا چھوڑنا یا اس کی نذر ہو جانا ثابت قدمی کی نشانی نہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بہرحال ’’ڈھنگ ٹپائو‘‘ پالیسی کو ہی جاری رکھا اور اب ڈھنگ ٹپتے ہوئے نظر نہیں آتے چنانچہ یہ کہنا درست ہو گا کہ گزشتہ چالیس یا پچالس سال کے ڈھنگ تو ٹپ گئے آنے والا ایک ایک ڈھنگ ٹپنا مشکل دکھائی دے رہا ہے مگر اس کیلئے وضع کردہ حکمت عملی کو غیر عوامی بنانے کا بھی کوئی جواز نہیں کہ اگر آپ یہ سب کچھ عام لوگوں کی بہتری کیلئے کر رہے ہیں تو پھر عام آدمی کی زندگی مشکل نہیں ہونی چاہیے اگرچہ ہمارے جمہوری نظام میں قوانین 5لاکھ جانیں لینے یا پانچ لاکھ کرپٹ انسانوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی اجازت نہیں دیتے تو پہلے آپ قوانین میں تبدیلی لائیں اور بعد میں ذمہ داری کا تعین کریں۔ آپ کو اس لیے تو صفائی مہم کا انچارج نہیں بنایا گیا کہ آپ پہلے سب کے گندھے کپڑے لوگوں کو دکھائیں اور بعد میں اپنے بندھے ہوئے ہاتھ!!