مولانا فضل الرحمٰن کی مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے ایما پر بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس جسے آل پارٹیز کانفرنس کہا ہی نہیں جا سکتاکیونکہ اس میں جماعت اسلامی،ایم کیو ایم اور اختر مینگل کی پارٹی شامل نہیں تھی۔پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی تحریک انصاف کی عدم شرکت سے کوئی بھی کانفرنس آل پارٹیز کیسے ہوسکتی ہے؟۔مولانا کی یہ کانفرنس چونکہ تھی ہی حکومت کیخلاف تو اس میں حکومتی پارٹی کی عدم شرکت کا جواز ضرور بنتا ہے۔اس کانفرنس سے اپوزیشن ایکسپوزہوئی جبکہ حکومت کی مضبوطی کا تأثر قوی تر ہوا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن اور ن لیگ کا مریم نواز گروپ حکومت کے بلاتاخیر خاتمے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تلا ہوا تھامگر انہیں پی پی پی اور ن لیگ کے شہباز شریف کے زیر اثر گروپ کی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔حکومت کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال اپوزیشن کے استعفوں سے پیدا ہوسکتی ہے۔جب آدھی اسمبلی مستعفی ہوجائے تو حکومت کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوگا۔مولانا اور مریم ایسا ہی چاہتے ہیں مگر اس پر اتفاق نہ ہوسکا۔مرکز میں جو ہوگا سندھ میں بھی وہی پریکٹس ہوگی جبکہ پیپلز پارٹی اس کے پاس جس قدر بھی اقتدار ہے اس سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتی۔ن لیگ مولانا کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا وہ دوبارہ انتخابات کے نتیجے میں پھر ہار جاتے ہیں تو انکا کیا بگڑے گا۔اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کے بڑے اعلان ہوتے رہے،لانگ مارچ ،تحریک اور مظاہروں کا عزم ظاہر کیا گیا مگر اے پی سی میں اس معاملے پر بھی اتفاق نہ ہوسکا۔ ابھی ایسے اعلانات کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے،بجٹ تیس سے زائد ووٹوں سے پاس ہوگیا۔اپوزیشن اب تک طعنہ زن رہی تھی کہ حکومت کے پاس چار ممبران کی اکثریت ہے۔قومی اسمبلی نے ائندہ مالی سال کے بجٹ کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ اپوزیشن کی تمام ترامیم مستردکردی گئیں۔شورو غوغا کی عادی اپوزیشن نے وفاقی بجٹ کی منظوری کے وقت ’’نو نو‘‘کے نعرے لگائے اور اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کیا۔ اس موقع پر حکومتی ارکان نے وکٹری کا نشان بھی بنایا قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کے حق میں 178ارکان نے ووٹ دئیے جبکہ 146 ارکان نے بجٹ کی مخالفت میں ووٹ ڈالے۔بجٹ میں 1837 ارب روپے حجم کے سالانہ ترقیاتی منصوبے کو منظور کر لیا گیا ۔سودکی ادائیگی کے لیے 2891ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے۔اس حکومت کو سود کی ادائیگی نہ کرنا ہوتی تو اس کیلئے مختص تین ہزار ارب روپے کے قریب رقم ترقیاتی منصوبوں کیلئے استعمال ہوتی جو اب دوہزار سے بھی کم رکھی گئی ہے۔جن قرضوں پر سالانہ تین ہزار ارب روپے سود دینا پڑتا ہے جبکہ اصل قرض اپنی جگہ پر موجود رہتاہے،اس کے ذمہ دار باریاں لینے والے سیاستدان ہیں۔ان میں سے کچھ اپنی شامتِ اعمال کی پاداش میں جیل میں ہیںاور بہت سے جیل کی طرف گامزن ہیں۔اے پی سی میں دس سال میں لئے گئے قرضوں کے حوالے سے تشکیل کردہ کمیشن کی شدید مخالفت کی گئی۔اگر کسی کا دامن صاف ہے تو اسے انکوائری اور تحقیقات سے ڈرنے اور مخالفت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
حکومت کے خاتمے کیلئے سرگرداں اپوزیشن کے غبارے سے آرمی چیف کے اس بیان سے بھی ہوا نکل گئی جس میں انہوں نے معیشت کی زبوں حالی سے موجودہ حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا بلکہ واضح کیا کہ:’’معاشی خودمختاری کے بغیر قومی خود مختاری ممکن نہیں ہے۔ حکومت نے طویل مدتی فوائد کے حصول کے لیے مشکل اور مثالی فیصلے کیے۔ ان فیصلوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے سب کو مل کر ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ مشکل وقت میں کوئی ایک فرد تن تنہا کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایسے مواقع پر قوم کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور اب وقت ہے کہ ہم ایک قوم بن کر دکھائیں۔ ‘‘یہ حکومت کیلئے فوج کی طرف سے بہت بڑی سپورٹ ہے جس سے اپوزیشن کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔جنرل باجوہ کے اس بیان سے سٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی اور ڈالر یکدم پانچ روپے نیچے گر گیا۔تحریک انصاف کو حکومت میں لانے کا قوم کا فیصلہ قابل ستائش ہے باری والے آتے تو ایک آدھ ٹرم مزید قرض لے کر نکال سکتے تھے۔آخر قرض خواہوں نے واپسی کا تقاضا کرنا اور جو قومی اثاثے گروی رکھے ہیں ان سے ہاتھ دھونا پڑتے،ملک دیوالیہ ہوجاتا۔معیشت ڈوبنے سے تو بڑی بڑی ایمائرز شکست و ریخت کا شکار ہوگئیں۔عمران خان کیلئے بھی قرض سے چند سال نکال لینا آسان تھا مگر اس نے مشکل راستہ اختیار کیا۔جس پر چلتے ہوئے قرضوں سے نجات کی منزل کی گامزن ہیں۔اُدھر اپنی لیڈر شپ کی مایوس کن کارکردگی کے باعث بیس کے قریب ایم پی ایز اور ایم این ایز پی ٹی آئی حکومت سے رابطہ کر چکے ہیں،ہم فارورڈ بلاک کے حامی نہیں ہیں،مگریہ بھی مکافات عمل ہے،شہباز شریف نے پی پی پی کے 44ایم پی ایز کا فارورڈ بلاک بنویا تھا۔
کڑا احتساب پی ٹی آئی حکومت کا ایجنڈا ہے جس پر کمپرومائز کرنے کیلئے حکومت کسی دباؤ اور مصلحت کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں،اس حوالے سے ادارے بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔جیسے پاک فوج کی طرف سے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کی گئی ہے۔عدلیہ کی طرف سے میرٹ پر فیصلے آرہے جس کے باعث بڑے ناموں کے کرپٹ لوگ قانون کی زد میں آرہے ہیں،کھربوں کی جائیدادیں واگزار ہورہی ہیں۔ایک پراپرٹی ٹائیکون نے ساڑھے چار سو ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔لاہور میں کھربوں کی مالیت کے رائل پام کلب کا فیصلہ حکومت کے حق میں آیا ۔نیت صاف ہوتو اللہ بھی مدد کرتا ہے۔حکومت کی خدائی مدد ہوتی نظر آرہی ہے۔ہمت مرداں مدد خداایمنسٹی سکیم آخری دنوں میں توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوئی جس کے باعث اس کی مدت میں چار روز کی توسیع کرنا پڑی۔