سید منور حسن تھے تو جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کے منصب پر فائز لیکن درویشانہ صفات کی وجہ سے انہوں نے کبھی مجھے امیر جماعت ہونے کا احساس نہیں دلوایا کیونکہ امیر جماعت اسلامی اپنے منصب کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے محفل آرائی نہیں کرتے اور کارکنوں میں گھل مل نہیں جاتے بلکہ اپنے مرتبہ کا تقدس قائم رکھتے ۔ ’’بے تکلفی ‘‘اس حد تک کہ میں اکثر و بیشتر ان سے مذاق کرنے کی جسارت کر لیتا تو وہ برا نہیں مناتے تھے بلکہ ’’جوابی وار ‘‘ کر کے حساب برابر کر دیتے ۔ مجھے یاد نہیں ان سے محبت و ارادت کا رشتہ کب استوار ہوا لیکن تعلق خاطر اس حد تک مضبوط تھا کہ جب وہ اسلام آباد کی جانب رخت سفر باندھتے تو شاہد شمسی اور عطا الرحمن کی وساطت سے بلوا لیتے ان کی غیر رسمی ملاقات کے شرکاء خاص میں سینئر صحافی سعود ساحر اور میاں منیر ہوتے۔ اسلام آباد میں آمد پر ان کی سینئر صحافی شکیل ترابی اور محسن رضا خان سے بھی ملاقاتیں ہوتیں۔ بہر حال سید منور حسن اسلام آباد پر کوئی میلہ نہیں لگاتے تھے بس ان کے احباب کی مختصر فہرست تھی۔ وہ میاں اسلم کے’’ دولت خانہ‘‘ پر قیام کر لیتے یا جماعت اسلامی کے ’’غریب خانہ‘‘ کو رونق بخش دیتے، درویش صفت انسان تھے جو مل گیا کھا لیا میں نے ان کو ہمیشہ سفید لباس میں ہی دیکھا ۔ سید منور حسن اپنی خو کے پکے تھے، جو بات کہہ دی اس سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹتے تھے، نتائج کی پروا کئے بغیر ڈٹ جانا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو کسی ’’ ادارے ‘‘ کا تابع محمل بنایا اور نہ ہی طفیلی جماعت بلکہ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھایا جب مجھے ان کی وفات کا علم ہوا میں اپنے آپ پر ضبط نہ پا سکا۔ بے اختیا ر میری آنکھیں اشک بار ہو گئیں دوست تو وہ تھے ہی لیکن اس صدی کا ولی اس دنیا سے اٹھ گیا، وہ ایک بہادر سیاست دان تھے۔ انہوں نے اپنی امارت کے دوران ہمیشہ کلمہ حق کہا اور اس بات کی پروا کئے بغیرکہ ان کی بات سے کوئی طاقتور ناراض ہوجائے گا جبر کی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ۔
سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیرتھے، انہوں نے مارچ 2009ء میںجماعت اسلامی پاکستان کی امارت سنبھالی ، ان سے قبل جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد‘ جماعت اسلامی کے امیر رہے۔ سید ابوالاعلی کے جرأت مندانہ کردار نے اسلامی تحریک کا حصہ بنایا میاں طفیل محمد کی درویشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ جب انہوں امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد مری کا پہلا دورہ کیا تو ان کے قیام کیلئے ممتاز سماجی شخصیت شفا ء الحق کی رہائش گاہ کا انتخاب کیا جب انہوں نے میاں طفیل محمد کی پیوند لگی شیروانی دیکھی اور اپنے جوتے خود پالش کرتے دیکھے تو ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا ۔قاضی حسین احمد کی شخصیت کا بڑا دبدبہ تھا ان کے سامنے کوئی اختلافی بات کرنے کے لئے بڑا حوصلہ درکار ہوتا تھا۔ انہوں نے عام انتخابات کا فیصلہ کیا تو میں نے انہیں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے جذبات سے آگاہ کیا تو انہوں نے بڑے پیار و محبت سے سمجھایا کہ آج تو تم نے انتخابات میں حصہ لینے کی بات کر دی آئندہ میرے فیصلے کو تبدیل کرانے کی کوشش نہ کرنا ۔
سید منور حسن 2009ء سے 2014ء تک جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہے۔ میں نے میدان سیاست میں ان جیسا جرات مند سیاست دان کم کم ہی دیکھا ہے۔انہوں نے پوری عمر ایک عام شخص کی طرح گذار دی میری ان سے عقیدت اور محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جب میں کچھ عرصہ قبل کراچی گیا تو انہوں نے اپنے دفتر ادارہ معارف اسلامی میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ ان سے ملکی سیاست پر کھل کر باتیں ہوتی رہیں۔ یہ معلوم نہ تھا کہ اتنی جلدی ہم سے بچھڑ جائیں گے جب میں جانے لگا تو مجھے گاڑی تک الوداع کہنے آئے ۔میرے منع کرنے کے باجود انہوں نے کہا کہ’’ یہ ممکن نہیں آپ مجھ سے ملاقات کے لئے آئیں اور میں آپ کو الوداع کہنے گاڑی تک بھی نہ آئوں ‘‘ سینئر صحافی سعود ساحر اور میاں منیر احمد ان کی اسلام آباد آمدپر سید منور حسن کے پاس حاضری دینے جاتے تھے ۔پہروں ان کے زریں خیالات سننے کا موقع ملتا ۔ زمانہ طالب علمی میں ہی منور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر کی شہرت رکھتے تھے ۔سید منور حسن 1959 میں طلبہ کی بائیں بازوکی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میں رہے بعدا زاں اس تنظیم کے صدر منتخب ہو گئے پھر سید ابو الا علیٰ مودودی کی کتب کے مطالعہ نے ان کی زندگی میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ اسلامی تحریک کا حصہ بن گئے۔ 1960 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ شامل ہو گئے 1964 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی صدر (ناظم اعلیٰ) منتخب ہو گئے ۔
سید منور حسن کو یہ اعزاز حاصل ہے انہیں سید مودودی جیسے کامل ولی کو دیکھنے‘ ملنے‘ اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔ اطاعت کی عمدہ مثال قائم کی ‘ لوگ سوال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں ‘ جہاں سوال کرنا ضروری سمجھا وہاں انہوں نے ڈٹ کر سوال کیا‘ اور پھر پوری جرأت سے ’’ بیلنس شیٹ دکھانے کا تقاضہ کیا ‘ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اسامہ بن لادن کو شہید قراردیا مگر چند لمحوں کے بعد ترجمان میدان میں اتر آگئے کہ زبان پھسل گئی ہے‘ سید منور حسن نے بھی اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا تھا‘ اور وہ اپنی بات پر قائم رہے‘ انہیں علم ہوتا تھا کہ وہ کیا بات کہہ رہے ہیں‘ لفظوں کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے‘ سید منور حسن جیسا شعلہ بیان مقرر اب کہاں ملے گا ؟ وہ ایک بااخلاق تھے‘ پوری زندگی اقامت دین کی جہدوجہد میں گزاری تحریک اسلامی بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے تحریکوں کے رہنما تھے۔ ان کی نگرانی میں معارف اسلامی نے 70 علمی کتب شائع کیں‘ 1967 میں جماعت اسلامی پاکستان کے رکن بنے 1977 اور پھر 42سال بعد اس جماعت کے سربراہ منتخب ہوئے۔ وہ1977ء کے متنازعہ انتخابات میں کراچی سے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو ئے لیکن پاکستان قومی اتحاد کے فیصلہ کے تحت انہوں نے حلف نہ اٹھایا۔ لیکن بعد ازاں ان کی اہلیہ عائشہ منور کو قومی اسمبلی کی خاتون رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سید منور حسن ایک عظیم قائد اور حق گوئی و بے باکی کی عملی تصویر تھے۔
خوش مزاج تو تھے ہی لیاقت بلوچ نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ منصورہ میں 22سال تک ایک کمرے میں ہی سارا وقت گزاردیا اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی میں بسر کر دی ۔وہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کیلئے رول ماڈل تھے۔ انہوں نے اپنے سے کہیں جونیئر امیر سراج الحق صاحب کی اطاعت کی مثال قائم کی۔ سید منور حسن کی وفات سے ملکی سیاست میں شرافت ، ایمانداری ، جرأت و استقامت ایک باب ختم ہو گیا۔ انہوں نے اپنی امارت کے دوران جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جرات و استقامت کی راہ دکھائی ۔ سید منور حسن جیسی عظیم شخصیت کی مدتوں یاد آتی رہے گی ۔