پاکستان کے گلے میں پھندا

وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا بیان پاکستان کے گلے کا پھندا بن گیا ہے، یورپ نے پی آئی اے پر اپنے دروازے بند کردئیے۔ ساری دنیا ویسے ہی پاکستانی پائیلٹوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ ی ہوئی ہے۔برطانیہ نے بھی ہتھرو، مانچسٹر اور برمنگھم سے پاکستان کیلئے پی آئی اے کی تمام پروازیں 6 ماہ کے لئے منسوخ کردی ہیں۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق اب 3 جولائی یعنی کل تک آپریشن کی اجازت دیدی گئی ہے۔ پائیلٹ کا پیشہ ’کھوہ کھاتے‘ ہوچکا ہے۔ ہمارے وزیر ہوا بازی کا بیان ائیر لائن کے شعبے کیلئے ’’نائن الیون‘‘ ثابت ہوا ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ سرور خان کو یہ فہرست دی کس نے؟ اگر262جعلی لائسنس جاری ہوئے تو سول ایوی ایشن ذمہ دار ہے، وہاں کیا کارروائی ہوئی؟ وہاں کس نے پیسے کھائے؟ ہر چھ مہینے بعد امتحان اور دیگر مراحل سے گزر کر ان ہوا بازوں کے لائسنس کی تجدید ہوتی ہے، اس سارے عمل میں کون مال بناتا رہا؟ وزیر ہوابازی 2014 کی انکوائری رپورٹ کب ایوان میں پیش کریں گے؟؟
ہوابازی کے شعبے کے انتظامی اداروں (ریگولیٹرز) نے پی آئی اے کے یورپ میں داخلے پر چھے ماہ کی پابندی لگائی ہے۔ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مترادف اس اقدام کی وجہ کوئی اور نہیں ہم خود بنے ہیں۔ وزیر موصوف نے سوچے سمجھے بغیرپی آئی اے ایک تہائی پائیلٹس کی جعلی ڈگریوں اور لائیسنس کا اعلان کردیا۔ کراچی میں ایک طیارہ گرا تھا۔ غلطی کا ذمہ دار پائیلٹ قرار پایا۔ اب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پوری وزارت چلانے والے وزیرنے پورے پی آئی اے کو ’’حادثے‘‘ کا شکار کردیاہے۔
ترجمان پی آئی اے کے مطابق ’’یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی‘‘ (ایسا) نے پی آئی اے کو بتایا ہے کہ ’’ابھی واضح نہیں کہ باقی ماندہ (پی آئی اے) پائیلٹس تربیت یافتہ اور مطلوبہ اہلیت کے حامل ہیں یا نہیں۔‘‘ پی آئی اے کے ترجمان نے غیرملکی خبررساں ایجنسی کو مزید دانائی کے گل کھلاتے ہوئے فرمایا کہ متعلقہ پائیلٹس پی آئی اے کیلئے ’’قابل بھروسہ نہیں رہے۔‘‘ جب پی آئی اے کیلئے وہ قابل بھروسہ نہیں تو دنیا ان پر بھروسہ کیونکر کریگی؟ماہرین کیمطابق ہمارے جہازوں کے داخلے پر پابندی جعلی لائسنس کی وجہ سے نہیں لگائی گئی بلکہ یورپ اور مغربی دنیا نے اس بات پر سر پکڑ لیا ہے اور ان کا ماتھا ٹھنکا ہے کہ ریگولیٹر ہی مشکوک ہے۔ لائسنس دینے والا ادارہ سول ایوی ایشن ہے۔ وہی لائسنس کی تجدید کا بھی ذمہ داری ہے۔ ہر لائسنس پر ’سی۔اے۔اے‘ کی مہر ثبت ہے۔ سوال ’سی۔ اے۔ اے‘ پر آرہا ہے کہ اسکے نظام میں اتنی بڑی خامی ہے کہ لائسنس جعلی جاری ہوگئے اور وہ بھی860 میں سے 262؟؟؟ ان میں سے نصف پی آئی اے کے پائیلٹس بتائے گئے جس پر قومی ائیر لائن نے 434 میں سے 141 پائیلٹس کو گراونڈ کردیا۔
’ایسا‘ کے مطابق پی آئی اے اور نجی پاکستان ائیر لائن پر پابندی پاکستانی پارلیمان میں ہونیوالے انکشاف کی روشنی میں عائد کی گئی ہے۔ پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے جارہے ہیں۔ پی آئی اے کورونا وبا کی وجہ سے پہلے ہی بہت کم پروازیں چلا رہی تھی۔ گزشتہ ماہ جب ملک کے اندر پی آئی اے پروازوں کو پھر سے چلایاگیا تو کراچی میں طیارے کا حادثہ ہوگیا۔ پی آئی اے نے حال ہی میں یورپی دارالحکومتوں پیرس، میلان اور بارسلونا کیلئے پروازوں کی بکنگ کا عمل شروع کیاتھا کہ نیا’’حادثہ‘‘ ہوگیا۔ برطانیہ کیلئے پروازیں بھی بند کردی گئی ہیں۔ ’’ایسا‘‘ کا کہنا ہے کہ ’’پاکستانی مجاز حکام کی قومی ائیر لائن چلانے اور استعداد کار عالمی معیارات کے مطابق یقینی بنانے کی صلاحیت پر تشویش کے سبب پی آئی اے کومعطل کیاگیا ہے۔‘‘ واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ یورپی یونین کی عائد کردہ یہ پابندی پی آئی اے یا اس کے پائیلٹس پر نہیں بلکہ سی اے اے پر عائد ہوگئی ہے۔ پی آئی اے کے اندر کے معاملات جاننے والوں کے مطابق یہ فہرست کہاں تیار ہوئی؟ وہ سب جانتے ہیں۔ یہ فہرست کب سے ’رْل‘ رہی تھی۔ ان میں سے آدھے لوگ بیرون ملک جاچکے ہیں، ریٹائر ہوچکے ہیں اور آدھے جہان فانی سے کب کے پرواز کرچکے ہیں۔
سول ایوی ایشن والوں سے فہرست کی تفصیل مانگی گئی ہے۔ نصف لوگوں کے نام انکے ’پی‘ نمبرسے نہیں مل رہے۔نصف لوگ جنہوں نے کپتان کیلئے درخواست گزاری تھی، ان کا ریکارڈ نہیں مل رہا۔ ایک طْرفہ تماشا جاری ہے۔ خود اعلیٰ حکام بھی چکرا کر رہ گئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آٹھ سے دس پرچے ’سی۔اے۔اے‘نے لینے ہوتے ہیں۔ اب اگر بورڈ کا پرچہ آئوٹ ہوجائے تو سب کے امتحان کو مشکوک کیسے قرار دیاجائے گا؟؟ اس میں قصوروار تو پرچہ بنانے والوں اور اسے جاری کرنے والوں کا ہے ناکہ امتحان دینے والوں کا؟؟ یہ اعتراض بھی اٹھایاجاتا ہے کہ سول ایوی ایشن کے پرچے بھی خاصے دلچسپ ہوتے ہیں۔ جو ’ایم۔سی۔کیوز‘ یا مختصرا سوالات پوچھے جاتے ہیں، ان میں ’کارڈیالوجی‘ یا امراض قلب سے متعلق سوال بھی پوچھے جاتے ہیں جن کا ہوا بازی سے تعلق نہیں ہوتا۔ یہ آن لائن امتحان ہوتا ہے۔ سرور خان کے بیان کو درست مان لیاجائے تو اس سے کئی سنگین سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ سول ایوی ایشن کس کے ماتحت ہے؟ اس میں حاضر سروس یا ریٹائر ہوکر افسران کہاں سے آتے ہیں؟ اس کا جواب ہے پاک فضائیہ۔ لالو کھیت سے تو یہ لائیسنس ملتا نہیں؟
اپوزیشن جماعتوں سے یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ ’سٹیل مل‘ کی طرح پی آئی اے پر چند لوگوں کی نظریں گڑی ہیں اور عمران خان حکومت کے ’قا بل وزیر‘ کے پھول جھڑنے سے جو غدر مچا ہے، اس کے نتیجے میں پی آئی اے ’ٹکے سیر‘ قیمت پر خریدنے کی تیاری جاری ہے۔ ہمیشہ کی طرح حادثے پر چوہدری شجاعت والی ’’مٹی پاو‘‘ فارمولا یہ کہہ کر استعمال کیاجارہا ہے کہ ’’اصلاحات درکار ہیں۔‘‘ پاکستان کو ’’چارچاند‘‘ لگانے والے عمران خان نے پارلیمان میں یہ اعلان کیا ہے کہ پی آئی اے اور دیگر حکومتی اداروں کی وہ اصلاح کریں گے۔ دو سال گزر گئے اور وزیراعظم فرمارہے ہیں کہ ’’قومی اداروں کو اصلاح کی اشد ضرورت ہے‘‘، واہ یہ بیان بھی غلام سرور خان کے پارلیمان میں دئیے گئے بیان سے کم ’’وزن‘‘ کا نہیں۔ انہیں چاہئے کہ اصلاح بعد میں کرلینا پہلے درپیش مسئلے کو حل کریں تاکہ پاکستان کی بدنامی بند ہو اور پی آئی اے کا پہیہ چلے۔
پی آئی اے کے حادثے پر اتنی بڑی تحقیقاتی رپورٹ آئی۔ اگر وزیراعظم نے اس رپورٹ کی بریفنگ غور سے سنی ہوتی یا مطالعہ کیاہوتا تو اسی وقت انہیں اس نکتے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے گہرے نقصانات کا اندازہ ہوجاتا؟ حیرت در حیرت اس بات پر ہے کہ پوری کابینہ حالت ’’بے ہوشی‘‘ میں یہ سب سْن رہی تھی؟ یا پھر سْن تھی؟ اور کچھ بھی سْن ہی نہ سکی؟ سانپ نکل گیا اور اب لکیر پر سب ڈنڈے برسا رہے ہیں، قوم اور پی آئی اے ہلکان ہیں۔ پاکستان کی عالمی سطح پر ’بھَد‘ اڑائی جارہی ہے۔ موذی دشمن بھارت میں جشن کا سا سماں ہے۔
افسوس یہ وہی ادارہ ہے جو 1970 تک خطے کی بہترین ہوا باز کمپنی کے نام سے مشہور تھا۔ بہترین پیشہ وارانہ مہارت، اہلیت اور انتظامی لیاقت، پی آئی اے کی شان تھی۔ دنیا میں ٹھٹھہ لگایاجارہا ہے کہ حاضر سروس پاک فضائیہ کا افسر جس ادارے کا سربراہ ہے، وہاں یہ سب ہورہا ہے؟

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن