ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو

جب سے وائرس کرونا ہماری جان کو آیا ہے گھر کے ہر ملازم کو اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر پریکٹیکلی بتا بتا کر تھک چکی ہوں۔ کرونا وباء کے بارے میں سنتے ہی اپنے ملازمین کو تنخواہ سمیت ایک ماہ کی عارضی رخصت دی اور ساتھ کچھ اور رقم بھی دے دی تاکہ وہ گھر جاتے جاتے میڈیکل سٹور سے ڈیٹول، ماسک، گلوز اور سینیٹائزر بھی آسانی سے خرید سکیں۔ عید سے پہلے کچھ سکون ہوا ہی تھا کہ ایک ملازمہ کو دوبارہ گھر بلا لیا۔ صبح ملازمہ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ ماسک کے بغیر ہی آدھمکی تھی۔ گھر میں ایک شور اُٹھا وہ ماسک کے بغیر ہے اسے اندر مت آنے دینا اسے گھر کے اندر نہیں آنا چاہیے یہ ہمارے لیے بھی خطرہ ہوسکتی ہے۔ خیر اُس کو گھر کے اندر داخل کیا سب سے پہلے خود ماسک پہنا، دستانے پہنے اور پھر دروازہ مکمل کھول کر تیار شدہ disinfected محلول کو اس پر شاور کیا، پائوں سے جوتیاں اتروائیں، صابن سے پائوں دھلوائے، جوتی بدلوائی، ہاتھ دھلوائے اور پھر gloves پہنا کر صحن کی صفائی پر لگا دیا۔
کئی روز گذر گئے یہی تراکیب لڑاتے ہوئے مگر وہ بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ روزانہ ماسک اور گلوز اُتار کر کوڑے میں پھینک جاتی۔ بچوں کے اضطراب کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے بچوں کی صبح بیداری سے قبل ہی ملازمہ کو علی الصبح بلانا شروع کردیا تاکہ وہ امور خانہ کی تمام تر انجام دہی کے بعد بخیریت ہمارے حال پر رحم کرتے ہوئے اپنے گھر واپس لوٹ جائے۔ مگر وہ بھی بھلا ماننے والی کہاں تھی بتائے گئے SOPs کو ہوا میں اُڑاتی ، آنچل کو لہراتی ہوئی روزانہ یونہی ہنستی مسکراتی چلی جاتی۔ آخر میں نے ایک دن اُسے کہا کہ تم روز ایسے ماسک کے بغیر ہی باہر گھومتی پھرتی ہو، تم ٹی وی چینلز پر بھی تو دیکھتی ہوگی کہ آجکل کرونا نے پھر سے سر اُٹھا لیا ہے۔ کرونا تو کسی کو نہیں دیکھتا امیر، غریب، چھوٹا، بڑا جو بھی اُس کے ہاتھ لگے وہ اپنا کام دکھا دیتا ہے ۔ اب تو تم کچھ SOPs کا خیال کرلو میری جان اور پھر ماسک سے تو کچھ نہیں ہوتا تم نے بس اپنی ناک پر ہی تو ٹکانا ہے۔ وہ مسکرا کر بولی باجی دیکھیں یہ کرونا شرونا کچھ بھی نہیں ہے صرف ڈرامہ ہے ڈرامہ۔ میں تو آپ کی خاطر پہن لیتی ہوں کسی بھی گھر میں آپ کی طرح کا کوئی سائنسدان نہیں۔ لوگوں کو تو پتا ہی نہیں ہے جو باتیں آپ کرتی ہیں ویسے بھی جس کو ہونا ہے نہ بس اُسی کو ہونا ہے آج تک آپ نے اپنی آنکھ سے کرونا کو دیکھا؟ میں اُسے سمجھانے کے لیے اپنی پرانی گردان شروع کرنے ہی والی تھی کہ وہ زور سے بولی باجی اپنا ماسک اور گلوز تو میں نے کوڑے میں پھینک دئیے ہیں کل جھاڑو ذرا بڑا منگوا دیں اسے پھیر پھیر کر تو میری کمر جواب دے گئی ہے میری دو ماہ کی تقریروں اور پریکٹیکل demonstration پر وہ جھاڑو پھیر کر یہ جا وہ جا… یہ ہے ہمارے ملازموں اور عام لوگوں کی سوچ ہے جو گھر گھر نظر آتی ہے باہر سڑکوں پر نکلو تو لگتا ہے سب ٹھیک ہے کوئی بیمار نہیں کوئی اس دنیا سے جائے کس طرح بھی جائے انہیں اُس سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک طرف اس وبائی مرض نے ساری کائنات کو جامد کردیا ہے ہم بھی تو اپنی حدوں سے باہر نکلتے جارہے تھے اور جو شاید خدا تعالیٰ کو پسند نہیں تھا۔ پاکستان میں کرونا کی وباء شدت اختیار کرچکی ہے تقریبا ہر چوتھا آدمی اس بیماری کی لپیٹ میں آچکا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری لاپرواہ قوم اس قدر Critical حالات میں بھی سنجیدہ نہیں ہوسکی ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے زیادہ دنیاوی شغل مال و دولت زیادہ عزیز ہیں۔ ہم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر ہماری زندگی ہی نہ رہی تو اس مال و دولت عیش و عشرت کا کیا فائدہ؟ حکومت نے بھی ہماری قوم کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم اور اُن کے وزراء حضرات حکومت کو مجبور کرکے عید پر لاک ڈائون نہ کھلواتے اور 15 جون تک لاک ڈائون رہتا تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...