شوگررپورٹ پرعملدرآمد روکنے کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

Jul 02, 2020 | 12:16

ویب ڈیسک

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد روکنے کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے شوگر کمیشن رپورٹ پرعملدرآمد روکنے کے سندھ ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف حکومتی اپیل پر سماعت کی ۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا  کہ اٹارنی جنرل صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی مقدمے میں فیصلہ دیا ہے، کیا سندھ ہائی کورٹ کے علم میں یہ بات نہیں لائی گئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سندھ ہائیکورٹ کے عبوری حکم میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ذکر نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابھی تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمیشن کو شوگر ملز کو موقف کا موقع نہیں دینا چاہئے تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے سامنے موقف دینے کی ضرورت نہیں تھی، کچھ شوگر مل مالکان نہیں چاہتے کہ رپورٹ پر اتھارٹیز کارروائی کریں، کچھ شوگر مل مالکان کے پی اور کچھ بلوچستان ہائی کورٹ بھی چلے گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ابھی کسی شوگر مل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق شوگر مل والوں کو نہیں سنا گیا،چینی کی قیمتیں بڑھنے پر پورے ملک میں شور مچا، شوگر ملز مالکان کے حقوق کومکمل تحفظ حاصل ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت کو کہہ دیا کہ کسی ادارے کو معاملے پر ہدایات نہ دیں اور رپورٹ پر اداروں کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے،وفاقی کابینہ نے میری سفارش پر اداروں کو دی گئی ہدایات واپس لے لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ صوررتحال حکومت نے خود پیدا کی ہے، حکومت تحقیقات کرواکر مقدمات بنوا دیتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوگر مل ایسوسی ایشن کمیشن کی رپورٹ سے جان نہیں چھڑوا سکتی۔ کمیشن غیر قانونی قرار دے دیں تو پھر بھی ختم نہیں ہوگی، ریگیولیٹری اداروں کو کام سے نہیں روکا جاسکتا، کمیشن رپورٹ کالعدم ہونے سے بھی شوگر ملز کو کچھ نہیں ملنا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ملی بھگت کیسے ہوئی، 11 سال سے مسابقتی کمیشن کا حکمِ امتناع چل رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شاید ایف بی آر سمیت کئی اداروں میں اہلیت کا فقدان ہے۔ کمیشن ممبران کے نام سب کے سامنے تھے، کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ کمیشن کی تشکیل غیر قانونی تھی تو وہ پہلے چیلنج کیوں نہیں کی؟ کمیشن کے ارکان شوگرملز کے خلاف کیوں جانب دار ہوں گے؟ یہ بہت بڑا ایشو ہے جس سے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ عوام پر ایک طبقے کا قبضہ ہو گیا ہے،حکومت ریاستی اداروں کی مدد سے اس چیز کو نہیں روک سکتی پھر یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ کمیشن کے قیام کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا، کسی بھی انکوائری کمیشن کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری ہونا لازمی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چینی عوامی نوعیت کا مسئلہ ہے۔کیا شوگر کمیشن رپورٹ شائع ہو چکی ہے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ وفاقی کابینہ نے شوگر کمیشن رپورٹ تسلیم کر لی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا شوگر کمیشن رپورٹ بطور ثبوت استعمال ہو سکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن ارکان پر جرح کے بغیر رپورٹ بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کی حیثیت صرف فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کی ہے، ہوسکتا ہے گزٹ نوٹی فکیشن کسی دراز میں موجود ہو۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ گزٹ نوٹی فکیشن اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی چیز خفیہ نہ رہے، شوگر کمیشن کے تشکیل کی تشہیر پورے میڈیا میں ہوئی۔اٹارنی جنرل  نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کر چکے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شوگر مل ایسوسی ایشن کمیشن کی رپورٹ سے جان نہیں چھڑوا سکتی، کمیشن غیر قانونی قرار دے دیں تو پھر بھی معاملہ ختم نہیں ہوگا، ریگولیٹری اداروں کو کام سے نہیں روکا جا سکتا، کمیشن رپورٹ کالعدم ہونے سے بھی شوگر ملز کو کچھ نہیں ملنا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریگیولیٹری ادارے کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیے بغیر بھی کارروائی کر سکتے ہیں، شوگر ملز کے پاس ریگولیٹری اداروں میں اپنا دفاع کرنے کا پورا موقع موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب ممکن نہیں کہ کچھ ملزمان کے خلاف کارروائی سے روکا جائے اور باقی کے خلاف کارروائی جاری رہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔شوگر ملز کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابھی تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی ادارہ شوگر ملز کے خلاف حکم جاری نہیں کرے گا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ادارے رپورٹ کا حوالہ دیے بغیر کارروائی جاری رکھ سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ادارے آزادانہ کارروائی کرنے والے ہوتے تو کمیشن بنانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل ہوا تو سارا کیس ہی ختم ہو جائے گا۔ عدالت نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکلاء سے تحریری دلائل بھی طلب کر لیے۔سپریم کورٹ نے وفاق کی اپیل پر مقدمہ تین رکنی بنچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 14 جولائی تک ملتوی کردی ۔ 

مزیدخبریں