معزز قارئین !۔ 28 جون کو۔ 40 سال (12 اپریل 1801 ء سے 27 جون 1839ئ) تک تقسیم ہند سے قبل (لاہور میں ) متحدہ پنجاب کے سِکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 182 ویں برسی کی تقریبات ختم ہُوئیں ، جس میں پاکستانی سِکھوں اور بھارت اور دوسرے ملکوں میں آباد سِکھوں نے شرکت کی ۔ مصّورِ پاکستان علاّمہ اقبالؒ کے دَور میں سِکھوں سے مسلمانوں کے تعلقات بہت اچھے تھے ،جب آپ ؒ نے ’’نانک ‘‘ کے عنوان سے سِکھوں کے پہلے گورو ، گورو نانک جی کی مدح میں ایک نظم لکھی تھی ، جس کا یہ شعر بہت اہم تھا / ہے کہ …
پھر اُٹھی ،آخر صدا ، توحید کی ، پنجاب سے!
ہند کو، اِک مردِ کامل نے ، جگایا خواب سے!
…O…
سِکھوں کے پانچویں گورو ، گورو ارجن دیو جی کے دَور (1563ئ۔ 1606ئ) تک مسلمانوں اور سِکھوں کی بہت دوستی تھی ۔گرو ارجن دیو جی ہی درخواست پر 588 میں قادریہ سِلسلہ کے ولی حضرت میاں میر صاحب لاہوریؒ نے امرتسر جا کر سِکھوں کے ’’ہرمندر‘‘ (Goledn Temple) کا سنگِ بنیاد رکھا تھا لیکن، جب رنجیت سنگھ کا دَور آیا تو ، اُس کے حکم سے لاہور کی شاہی مسجد میں نصب قیمتی پتھر،اُ کھڑوا کر انہیں ’’گولڈن ٹمپل‘‘ میں جڑوا دِیا گیا تھا۔
سِکھوں کی اپنی تاریخ کے مطابق ’’ مہاراجا ،نے اپنی سگی ماں ، راج ؔکور کو، بدچلنی کی وجہ سے خود قتل کرادِیا تھا۔ مہاراجا کے حرم میں 46 عورتیں تھیں۔ جن میں سے 9 عورتوں سے مہاراجا نے سِکھ رسم و رواج کے مطابق شادی کی تھی اور 9 عورتوں کے سروں پر چادریں ڈال کر انہیں اپنی پتنیاں (بیویاں) بنا لِیا تھا۔ 7 مسلمان اور ہندو طوائفوں کے ساتھ شادی کی تھی۔ اُن سب کو مہارانیوں کا درجہ حاصل تھا۔ 20 عورتیں داشتائیں تھیں۔ مہاراجا کے مرنے پر چار مہارانیاں اور سات کنیزیں اُن کے ساتھ چِتا ؔمیں جل کر مر گئی تھیں ۔ اُن کی سمادھِیاں کہاں ہیں؟ ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کے علمبردار ہی جانتے ہوں گے۔
معزز قارئین! قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ نے سِکھ لیڈروں کو پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دِی تھی لیکن ، وہ نہیں مانے۔ 1947ء میں اُنہوں نے مشرقی پنجاب میں دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کردِیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا کر کے اُن کی آبرو ریزی کی۔
جون 1984ء میں سِکھوں کو عقل آ گئی جب ، بھارت کی آنجہانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے حکم پر ، بھارتی فوج نے "Golden Temple" پر چڑھائی کردی۔ ہزاروں سِکھوں کو موت کے گھاٹ اُتار دِیا ۔ پھر بے شمار سِکھ بھارت سے فرار ہو کر ، کینیڈا ، امریکہ اور کئی یورپی ملکوں میں سیٹل ہوگئے۔ پھر اُنہوں نے ’’ آزاد خالصتان ‘‘ کی تحریک شروع کردِی اور اُن کی میلی نظریں ’’ پاک پنجاب‘‘ پھر بھی پڑنے لگیں ۔
’’پنجابی کانفرنس پٹیالہ !‘‘
مجھے دسمبر 2004ء میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے بھارتی پنجاب کے شہر پٹیالہؔ میں منعقدہ ’’ عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ میں شریک ہونے کا موقع مِلا۔
2 دسمبر 2004ء کو ’’ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ‘‘ کے سائنس آڈیٹوریم میں بھارتی صحافی/ دانشور (آنجہانی) کلدیپ نائر صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں بھارتی سِکھ شاعروں، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں نے ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کی بات کی۔ وہ پاک پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی کو ’’ شاہ مُکھی‘‘ ( بادشاہوں کے مُنہ سے نکلی زبان ) کہہ رہے تھے لیکن ، مَیںنے کہا کہ ’’ساڈی پنجابی تے صوفی شاعراں تے عام لوکاں دِی زبان اے ۔
مَیں اَج اپنی پنجابی نُوں ’’لوک مُکھی‘‘ دا ،نا ں دینا ں ! ۔ یعنی۔ ’’ عام لوکاں دے مُنہ وِچوں نکلی ہُوئی زبان! ‘‘۔مَیں نے۔ اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا کہ ’’ پنجاب دِی سرحدی لکِیر وِچّ میرے بزرگاں دا لہو شامل اے۔ مَیں ایس لکِیر نُوں کدے وِی نئیں مِٹن دیاں گا‘‘۔ پھر مَیں نے وہاںاپنے لئے ناپسندیدہ چہرے دیکھے !۔
’’ جنابِ مجید نظامیؒ !‘‘
’’ پٹیالہ کانفرنس ‘‘ سے واپسی کے بعد مَیں نے اپنے ماہنامہ جریدہ ’’ چانن‘‘ میں ’’ مفسر نظریہ ٔ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ کا پنجابی زبان میں انٹرویو شائع کِیا ۔ (کسی پنجابی جریدے میں جنابِ مجید نظامیؒ کا یہ پہلا اور آخری انٹرویو تھا)۔ میرے سوال کے جواب میں جنابِ مجید نظامیؒ نے کہا کہ ’’ پنجاب دے اولیاء کرامؒ نے اپنی نثر تے شاعری نال پنجابی زبان دِی بڑھوتی کرن لئی بڑا جَتن کِیتا اے !‘‘ ۔ نظامیؒ صاحب نے فرمایا پئی پاک پنجاب دے جیہڑے شاعر، ادیب تے صحافی سِکھاں دِی ہاں وِچ ہاں ملاکے اپنا مُنہ کالا کردے ہن ، اوہ ایتھو ں( پاکستان توں) فوراً دفع ہو جان ! ‘ ‘۔
’’وکھری پاک پنجاب دِی بولی …!‘‘
معزز قارئین !۔ مَیں نے جولائی 2005ء میں پنجابی زبان میں ایک نظم لکھ کر ’’ پاک پنجاب ‘‘ میں لکھی اور بولی جانے والی پنجابی زبان اور بھارتی پنجاب یا دوسرے ملکوں میں ’’ سِکھی بولی ‘‘ ( گُورو مُکھی زبان میں ) فرق بیان کِیا ، جسے پاک پنجاب کے محب وطن پنجابیوں نے ،بے حد پسند کِیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں ! …
’’وکھرّی پاک پنجاب دِی بولی وکھرّی ’’ سکھی بولی !‘‘
…O…
اِک مِک ، نئیں کر سکدا، کوئی گولا نہ ، کوئی گولی!
وکھرّی ، پاک پنجاب دِی بولی ، وکھرّی ’’ سِکھّی بولی‘‘!
جیہڑے ، سکھّاں ، مُسلماناں نُوں ، کہندے قوم پنجابی!
عقلوں پَیدل ، کُوڑ مغزنیں ، سوچ ، اوہناں دِی ، بلولی!
…O…
جیکر ، پنجابی بولی دی ، سانجھ ، سِکھّاں نال ، ہوندی!
سن سنتالی وِچّ ، نہ کھیڈ دے ، ساڈے لہو نال ، ہولی!
…O…
کینیڈا ، امریکہ ، یُوکے ، پَیلاں پاندی جاندی!
’’ پنجابی جھنڈا‘‘ لہراندی ، مَنگتیاں دِی ، ٹولی!
…O…
کردے ، جُمعہ بازاراں وِچّ ، پنجابی کانفرنساں!
موڈھیاں اُتّے ، چُکّی پھر دے ، لوڑ وَندی دی ، ڈولی!
…O…
سِکھّ یاتری ، پنجہ صاحب ، ننکانہ ، جَد آئوندے!
اوہناں توں ، دانے ، منگ کے بَھر دے ، اپنی اپنی ، بھڑولی!
…O…
قائداعظمؒ نُوں مَندا، اقبالؒ نُوں ’’بالا‘‘ آکھن!
دُر فِٹّے مُنہ، اینہاں دا ، غَیراں دِی چُکّدے نیں، جھولی!
…O…
پشتو ، سِندھی، بلوچی، بولیاں نال ا، ایہہ، وَیر کماون!
اردو ، فارسی ، نُوں ، پھٹّ لاون، کچھّ وِچّ، رکھدے کرولی!
…O…
اپنے باغ ، بغیچیاں دِیاں ، خوشبواں نُوں ، چھڈّ کے!
چکّڑ وِچّ ، پسار پسارن ، جِیویں بھیڈ ، جھنڈولی!
…O…
بھاویں شرِیکا ، رَوہ الاوے ، بھاویں کچیچی وٹّے!
اثرؔ چوہان ، حقّ سچّ دا بندہ ، گلّ نئیں کردا ، پولی!
…O …
وکھرّی پاک پنجاب دِی بولی وکھرّی سکھی بولی !
Jul 02, 2021