افغانستان امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے انخلاء کے بعد سے مسلسل انتظامی مسائل کا شکار ہے اور یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ اگر ان مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو یہ کسی انسانی المیے کو جنم دے سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکا اور دیگر مغربی ممالک افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت پر لگائی گئی پابندیاں ہٹانے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکا نے نیٹو افواج کو ساتھ لے کر دو دہائیوں تک افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس ملک کو انتہائی بے رحمی سے لوٹا اور مقامی آبادی کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا۔ دو دہائیوں کے بعد امریکا اپنے اتحادیوں سمیت افغان سرزمین کو چھوڑ کربھاگ تو گیا لیکن افغانستان کے وسائل پر وہ آج بھی قبضہ کیے بیٹھا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی متعدد اپیلوں کے باوجود وہ افغان حکومت سے پابندیاں ہٹانے اور انھیں ان کے وسائل دینے پر آمادہ نہیں ہورہا۔ اب وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ طالبان حکومت کے ماتحت افغانستان پر عائد کی گئی مغربی پابندیوں میں نرمی کی جائے اور افغانستان کی معیشت کے بنیادی عمل کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو معاشی طور پر تنہا کرنے کا مطلب ملک کو معاشی بحران کی طرف دھکیلنا ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک اس بات کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ افغانستان میں حالات کی خرابی سے اس کے ہمسایے متاثر ہورہے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سلسلہ صرف ہمسایوں تک محدود نہیں رہے گا، لہٰذا امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان پر لگائی گئی پابندیاں فوری طور پر ہٹانی چاہئیں۔