عوام کی برداشت کامزید امتحان نہ لیں

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پھر اضافہ کر دیا ہے۔ پٹرول کی نئی قیمت 14.85 روپے کے اضافے سے 248.74 روپے فی لٹر ہو گئی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 13.23 روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ نئی قیمت 276.54 روپے ہو گئی۔ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 18.68 روپے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد نئی قیمت 226.15 روپے فی لٹر ہو گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 18.83 روپے کا اضافہ ہوا ہے اور نئی قیمت 230.26 روپے ہو گئی ہے۔ پٹرول پر پٹرولیم لیوی 10 روپے فی لٹر کیا گیا ہے جبکہ ڈیزل ، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل پر 5,5 روپے پٹرولیم لیوی عائد ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں مذکورہ اضافہ کرنے کے بعد وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پروگرام میں خاصی کامیابی ملی ہے اب ہم مثبت نتائج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کی رقم 6 سے بڑھ کر 7 ارب ڈالر ہو گئی اور معاہدے کی مدت تین سے بڑھا کر چار سال کر دی ہے۔
گزشتہ تین ماہ کے مختصر ترین عرصہ کے دوران جس بے رحمانہ انداز سے  پٹرولیم مصنوعات میں بے مہابہ اضافہ کیا گیا ہے  اور بجلی ،گیس اور  بنیادی ضرورت کی دیگر ا شیاء پر ٹیکس عائد کر کے غریب آدمی کے لیے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے میں مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں وہ  حکومت کے’ عوامی خدمت کے دعوے کی یکسر نفی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ دو، اڑھائی سال  قبل کووڈ۔19 کی وبا نے دنیا میں جو تباہ کاریاں کی ہیں کوئی بھی ملک ان سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی اس وبا سے بری طرح متاثر ہوئیں۔ لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنے، اربوں روپے کا نقصان ہوا اور پوری دنیا پر کساد بازاری کا غلبہ رہا۔ اس کے اثرات ابھی پوری طرح کم نہیں ہوئے تھے کہ روس نے اپنے ہمسایہ ملک یوکرین پر حملہ کر دیا ۔ اس جنگ کو روکنے کی ابتدائی طور پر جو کوششیں کی گئیں وہ بار آور نہ ہو سکیں اور اب اس جنگ کے شعلے اردگرد کے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات، گیس اور غذائی اجناس کی فراہمی متاثر ہوئی عالمی سطح پر ان کی قلت پیدا ہوئی اور نتیجے کے طور پر ان کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں۔ پاکستان بھی یقینی طور پر اس جنگ کے ذریعے پیدا ہونے والے بحران کی لپیٹ میں آیا اور اسے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔چند ممالک  نے تو دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے  اور حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات گیس اور غذائی اجناس کی وقت پر خریداری کے معاہدے کر کے اپنی معیشت کو کسی بڑے دھچکے سے بچا لیا لیکن پاکستان ایسے ممالک اس دوران گومگو کی حالت میں رہے۔ وہ  بر وقت ان مسائل کا ادراک نہ کر پائے اور آج اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ 2019ء میں اس وقت کی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کے قرضے کے حصول کے لیے جو معاہدہ کیا ،اس کے لیے اسے آئی ایم ایف کی شرائط بھی تسلیم کرنا پڑیں ۔ اس معاہدے کے تحت پہلی قسط تو پاکستان کو مل گئی لیکن دوسری قسط کے حصول کا وقت آیا تو حکومت تبدیل ہو چکی تھی۔ اب نئی حکومت کے لیے افتاد یہ آ ن پڑی کہ آئی ایم ایف نے سابقہ حکومت کی طرف  سے معاہدے کے مطابق طے شدہ  شرائط پر عمل درآمد سے اغماز برتنے  پر نئی حکومت سے بھی سردمہری اختیار کرلی اور معاہدہ کی بحالی کیلئے بعض نئی شرائط بھی عائد کر دیں۔ گو حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں ان کڑی اور اضافی شرائط میں نرمی  کے لئے کوشش ضرورکی  گئی لیکن دال نہ گلی اور مجبوراً گرتی  پڑتی  معیشت کو سہارا دینے کے لئے ان شرائط کو من و عن تسلیم کرتے ہی  بنی۔  جس کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے دوسری قسط ملنے کی یقین دہانی  تو حاصل ہوگئی ہے۔ لیکن جب ان شرائط پر عمدرآمد  کا مرحلہ آیا تو شہباز شریف حکومت کو عوام کی طرف سے شدید دباؤ اور سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ظلم یہ ہی نہیں، آئی ایم ایف  کی رضا مندی اور ایما پر بعض بنیادی ضرورت کی اشیاء پر سبسڈی  بھی ختم کر دی گئی ہے اور ستم یہ  بھی ہوا کہ ٹیکسوں کی شرح میں یک دم  اس قدربھاری بھر کم اضافہ کر دیا گیا ہے کہ عوام حقیقی معنوں میں بلبلا اٹھے ہیں۔ یہ کہناطفل تسلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کہ ان ٹیکسوں کے ذریعے ملک کی اشرافیہ پر مالی بوجھ ڈالاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ٹیکسوں کا بالآخر بوجھ عام آدمی پر ہی پڑے گا (اور پڑنا شروع بھی ہوگیا ہے)۔ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی  اور گیس یہ صرف تین سیکٹرز ہی ایسے ہیں کہ جن کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات براہ راست ہر پاکستانی  پر مرتب ہوتے ہیں۔ ان سے عام آدمی  کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن  ہے۔ حکومت اس اقدام کا ملبہ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں  یا غلط فیصلوں پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو کیا اس کو قومی معیشت کی صورت حال کا پوری طرح علم نہیں تھا۔ اس کے پاس ماہرین کی ٹیم بھی تھی ۔ جس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ حالات میں بہتری لانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ لیکن گزشتہ چند ماہ کی کارکردگی نے ان کے تمام دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ اصلاح احوال کی کوئی صورت بھی ابھی تک دکھائی نہیں دیتی۔ خود حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اب امور حکومت کی انجام دہی پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو اب مزید کسی تجربے سے گریز کرتے ہوئے صرف عوامی مسائل کے بہترین اور فوری حل کی جانب اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اسے تو  ایوان میں بھی  اب کسی اپوزیشن کی طرف سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ وہ  قانون سازی سمیت تمام فیصلے کرنے میں اب آزاد ہے۔ لہٰذا اسے فی الفور اپنی پالیسیوں کا رخ عوام کی فلاح اور بہتری کی طرف موڑنا ہوگا۔ اس کے لئے یہی ایک مہینہ ہے جس میں وہ عوامی  غضب سے خود کو بچانے کے لئے کچھ کر سکتی ہے بصورت دیگر جو لاوہ زیر زمین پک رہا ہے، کسی بھی وقت ابل سکتا ہے جو حکومت اور اس کے  اتحادیوں کے ساتھ سسٹم کو بھی  بہا کر لے جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس سنگین صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...