قومی زوال کے عمومی دورمیں امیدکی نگاہیں درس گاہوں کی جانب اٹھتی ہیں جہاں سے تعلیم و تربیت پاکر نکلنے والی نئی نسلیں مستقبل کی صورت گری کیاکرتی ہیں لیکن اس کا کیاکیاجائے کہ تعلیم وتعلم کے وابستگان بھی روش دنیاسے محفوظ نہیں ہیں اور وہ بھی نفع و نقصان کے انھی پیمانوں سے زندگی کو ناپتے دکھائی دیتے ہیں جو زندگی کو کسی اعلی معیارسے آشنانہیں کرسکتے ۔تعلیم وتعلم کی اعلیٰ ترین سطح جامعات میں ہوتی ہے لیکن جامعات کا جو حال ہے ارباب نظراس سے بے خبرنہیں ہیں ۔ جن اساتذہ کاکام نئی نسلوں کی نگاہوں پر بلندمستقبل کے خواب اتارناتھا وہ اپنی پست سیاست میں منہمک دکھائی دیتے ہیں ۔جہاں کہیں جامعات کے چارلوگ اکٹھے ہوں انکا موضوع گفتگو محلاتی سازشوں اور سیاست کے سواکچھ نہیں ہوتاشایدہی کوئی محفل ہو جس میں کسی علمی،سائنسی تحقیقی یاادبی مسئلے پر گفتگو سنائی دے ۔
جامعات کے نظام کو منظم کرنے کے لیے ایک مرکزی ہائرایجوکیشن کمیشن اور اس کے علاوہ صوبائی ہائرایجوکیشن کمیشن بھی قائم ہیں ۔پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن ،اعلی تعلیم اور معاشرتی خوش حالی کے لیے صوبے کے تعلیمی اداروں میں تدریسی وتحقیقی سطحوں پر بلندترین معیارکے حصول کو اپنامطمح نظربنائے ہوئے ہے۔گزشتہ دنوں پروفیسرڈاکٹرشاہدمنیرنے اس ادارے کے نئے سربراہ کے طور پرذمہ داریاں سنبھالیں تو اس موقع پر ان سے ہونے والی ملاقات میں یہ سوال زیربحث رہاکہ جامعات سے ’ محلاتی سیاست‘ کا خاتمہ کیسے کیاجاسکتاہے ؟ہمیں اس بات سے خوشی ہوئی کہ ڈاکٹرشاہدمنیرجو خود بھی ایک جامعہ کے استاد ہیں، اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ہماری رائے میں اس مسئلے کاحل نہایت سادہ ہے۔ وہ ہے میرٹ اور صرف میرٹ کا نفاذ۔ ہمارے ہاں تقریروں، تحریروں اور اعلانات میں تو میرٹ دکھائی دیتاہے لیکن حقیقت میں ہم اس سے بہت دورجاچکے ہیں۔معمولی سطحوں سے لے کر بلند ترین سطحوں تک میرٹ کی پامالی کے مظاہر آئے دن دیکھنے میں آتے ہیں ۔میرٹ کے خلاف کی گئی ایک تقرری اداروں کی دودوتین تین دہائیاں کھاجاتی ہے ۔ نئی نسلوں پر اس کے مضراثرات آنے والے زمانوں تک اپناکام دکھاتے رہتے ہیں۔ستم یہ ہے کہ میرٹ ناآشناملازمین اپنی تیسرے درجے کی کارکردگی کے ساتھ پہلے درجے کی مراعات اور فیوض و برکات کے تمنائی ہوتے ہیں اوراگرناکارکردگی کے ساتھ ان کی آرزوئیں پوری نہ ہوں تو اداروں میں ہرطرح کی سیاست، سازبازاورتوڑ پھوڑکے راستے کھلے رہتے ہیں۔ ڈاکٹرشاہدمنیرکوہم پنجاب یونی ورسٹی میں اپنے رفیق کار اور پھرجھنگ یونی ورسٹی کے وائس چانسلرکے طورپر کام کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ وہ بنیادی طورپر کیمیکل انجینئرنگ کے استاد ہیں۔ انھوںنے مستقبل میں کوئلے کی صنعت کے امکانات کو مدنظررکھتے ہوئے پنجاب یونی ورسٹی میں کول ٹیکنالوجی کے سنٹر کو فعال کیااوراس میں گراں قدرخدمات انجام دیں۔ انکے پاس، توانائی کے موجودہ بحران کے حل کیلئے ٹھوس تجاویز ہیں۔دورجدیدمیں کوئلے کی صنعت جس قدراہمیت اختیارکرچکی ہے اس کا اندازہ اسی بات سے کیاجاسکتاہے کہ پولینڈ میں بجلی کی ضروریات کا چھیانوے فی صد کوئلے کی صنعت سے پیداکیاجارہا ہے ،جنوبی افریقہ میں اٹھاسی فیصد، آسٹریلیا میں ستتر فیصداور چین میں اٹھترفیصد بجلی کوئلے کی صنعت کے ذریعے پیداکی جارہی ہے۔ علامہ اقبال نے آئن سٹائن کے بارے میں لکھی گئی نظم میںکوئلے کو روشنی ہی کی ایک شکل قراردیتے ہوئے کہاتھا:
خلوت او در زغال تیرہ فام اندر مغاک
جلوتش سوزد درختی را چو خس بالای طور
روشنی کی خلوت میں یہ تاثیرہے کہ وہ گڑھوں اور کانوں کے اندرسیہ فام کوئلہ پیداکردیتی ہے اور جب یہ اپناجلوہ دکھاتی ہے تو کوہ طورکادرخت اس کے جلوے کی تاب نہ لاکرخس و خاشاک کی طرح جل کرراکھ ہوجاتاہے۔
ڈاکٹرشاہدمنیردرددل رکھنے والے استاداور محقق ہیں انھوںنے ایک ماہرتعلیم اورمنتظم کے طورپر اپنی صلاحیتوں کالوہامنوالیاہے ۔ہمارے لیے ان کی شخصیت کا جوپہلو سب سے اہم ہے وہ ان کی اقبال اور فکراقبال سے وابستگی ہے ۔اس باب میں انھیں ایک غیرمعمولی امتیازیہ حاصل ہے کہ ان کا خاندانی تعلق پروفیسریوسف سلیم چشتی صاحب مرحوم سے ہے ۔پروفیسریوسف سلیم چشتی وہ واحدشارح ہیں جنھوںنے علامہ اقبال کے مکمل کلام کی شرح کی ہے۔ ان کی شروح کاامتیازیہ ہے کہ انھیں فکراقبال کی تفہیم میں جہاں کہیں دشواری پیش آتی وہ اس مقام کو خودعلامہ سے پوچھ کر حل کیاکرتے تھے۔ یہ ایساامتیازہے جو کسی دوسرے شارح اقبال کو حاصل نہیں اور نہ اب کسی کو حاصل ہوسکتاہے۔انھوںنے ایک بار علامہ سے مطالبہ کیاتھا کہ آپ اپنے کلام میں سے اپناپسندیدہ شعرمجھے لکھ دیں تو علامہ نے انھیں یہ شعرلکھ کردیاتھا ؎
تو نشناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل
چیست حیاتِ دوام سوختنِ ناتمام
تونے ابھی تک یہ نہیں سمجھاکہ وصل ،شوق کے لیے موت کا پیام لاتاہے۔حیات دوام کیاہے ؟ حیات دوام مسلسل سلگتے رہنے کانام ہے ۔ یہ شعر جس مسلسل جستجو اور لگن کا پیغام دے رہاہے ہمیں پروفیسرڈاکٹرشاہدمنیر کی بہ طور چیئرمین پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن تعیناتی سے ایسی ہی مسلسل جدوجہد، جستجواورلگن کی توقع ہے ۔
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کاچارہ
٭…٭…٭