انتظار سحر ....جاوید انتظار
pytislamabad@gmail.com
آجکل ہر عام و خاص فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس اور سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کی کاروائی پر رائے زنی کر رہا ہے۔رائے عامہ میں سیاسی جماعتوں سے الحاق اور عام آدمی کی ترجیحات کا عنصر غالب ہوتا ہے۔جب قومی سوچ تقسیم ہو جائے یا کر دی جائے تو متفکر الخیال لوگ بکھری بکھری سی حقیقت سے دور رائے رکھتے ہیں۔جس میں ایک خاص حد کے بعد سوچ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔جسکی بڑی وجہ ان ریاستی ،قومی اور سیاسی اداروں کا بدلتا کردار ہے۔ فوج کے کردار اور نظام عدل پر عوام کی رائے سے چشم پوشی زمینی حقائق پر پردہ پوشی ہے۔جہاں مثبت تنقید کو ایک مخصوص گروہ یا پارٹی کی عینک سے دیکھنے والے مخالفت کا رنگ دینے لگ جائیں وہاں موثر اور فعال نظام ہی کارگر ثابت ہوتا ہے۔اس وقت ملک میں 9 مئی کے حوالے سے دو عدالتیں لگی ہوئی ہیں۔ایک فوجی،دوسری سپریم کورٹ میں ۔فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس میں فوجی عدالتوں. کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فوج کے اندر خود احتسابی کے نظام کے تحت پہلے مرحلے میں 9 مئی کے ناقابل فراموش اندوہناک دہشت گردی کے واقعات میں دانستہ اور غیر ارادی طور پر ملوث متعد حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران اور انکے اہل خانہ خواتین کے خلاف سخت تادیبی کاروائیوں میں کچھ کو نوکریوں سے برخاست اور کچھ کو قید و بند کی سزا دی گئی ہے۔جسے تحریک انصاف کے عہدیداران و ذمہ داران اور عمران خان کے خلاف سخت اور فیصلہ کن پیغام سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم فوجی افسران اور انکے اہل خانہ خواتین کے نام منظر عام پر نہ لا کر پریس کانفرنس پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا گیا۔ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈز کے عزائم کا بتایا گیا تاہم انکے نام قوم کے سامنے نہیں لائے گئے۔ اور نہ ان 102 فوجی تنصیبات ،جناح اور کور کمانڈر ہاوس پر حملہ کرنے والے شر پسندوں کی تفصیلات سامنے لائی گئی۔جس سے عوام میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ یہ کیسا قانون ہے جسکا فوجی عدالتوں کے علاوہ کسی کو بھی پتہ نہیں ۔دوسری طرف فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ کا نو رکنی بینچ ٹوٹ کر سات پھر چھ رکنی رہ گیا۔پھر ان چھ میں سے ایک جج نے اختلافی نوٹ لکھکر چیف جسٹس سے فل بینچ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے نوٹ لکھا کہ اگر چھ رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کے بارے میں فیصلہ کیا تو اسے عوام میں پذیر آرائی نہیں ملے گی۔دوسروں لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے نہ فل بینچ بنے گا نہ قابل قبول فیصلہ ہوگا۔نہ نو من تیل ہوگا ہن رادھا ناچے گی۔سپریم کورٹ میں جرح کے دوران دونوں طرفین کے وکلائ نے فوجی عدالتوں کے حق اور مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے قانونی نقاط اٹھائے۔ترجمان پاک فوج کے پریس کانفرنس اور سپریم کورٹ کی سماعت میں کئی باتیں بین السطور میں ایسے کی گئی جس سے عوام کے ذہنوں میں سوالات ہی سوالات ابھرے ۔لیکن ہر کوئی ابھرنے والے ہر سوال کا جواب اپنے اپنے وڑن اور سوچ کے مطابق دے رہا ہے۔ان دو عدالتوں کی کاروائی اور سماعت پر میڈیا بھی اپنے اپنے تجزیئے دے رہا ہے۔
اس تمام تر صورتحال پر عمران خان تسلسل سے اپنے ورکرز پر ظلم و زیادتی کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے تو نیشنل پریس کلب کی اس لال کرسی میں جادو سا محسوس ہوتا ہے جس پر بیٹھکر تحریک انصاف کے وزراہ، اراکین صوبائی و قومی اسمبلی ،پارٹی عہدیداران اور سینیٹرز تحریک انصاف چھوڑنے اور سیاست سے لا تعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔عمران خان اپنے اصل ہدف سے ہٹ کر فوج پر ہرزہ سرائی سے اس نوبت تک پہنچے۔قومی اسمبلی نے تاحیات نا اہلی کی سزا ختم کر کے پانچ سال کر دی۔جس پر استحکام پاکستان پارٹی کے صدر حلیم خان نے جہانگیر خان ترین کو اگلا وزیر اعظم بننے کا بیان داغ دیا۔ ن لیگ کے احسن اقبال نے بھی برملہ کہہ دیا اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اتحادی حکومت بنائیں گے۔پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔گویا ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایک دھند سی چھائی ہے۔ادھر سپریم کورٹ نے بھی امید ظاہر کر دی کہ فوجی عدالتیں دوران سماعت کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہ کریں۔فوج کے ترجمان نے پریس کانفرس میں ایک مزے کی بات یہ کی کہ 9 مئی کی منصوبہ بندی کئی ماہ پہلے سے چل رہی تھی۔اگر ایسا تھا تو اس وقت ہماری ایجنسیز کہاں تھیں اور کونسے اس سے بھی ضروری مشن پر کام کر رہی تھی۔آج ایک دفعہ پھر قوم کے دل میں خوف کے بت جنم لے رہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ حق بات کرنے سے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔عمران خان بنیادی طور پر ہر ریاستی ادارے کو اپنے حدود و قیود میں لانا چاہتے تھے ۔لیکن انکی تقریر و تحریر میں جذباتیت کا عنصر غالب تھا ۔جسے ہر پارٹی کارکن نے اپنے لحاظ سے سمجھا۔جس سے کارکنان میں اشتعال اور سنسنی انگیزیت پیدا ہو گئی۔اس غیر منظم اور غیر منظقی بیانیہ سے فوج کے خلاف نفرت کا تاثر پیدا ہوگیا۔اوپر سے سوشل میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اس غیر منظم ایجنڈے سے ملک دشمن عناصر کو ہماری ریاست پر ہنسنے اور مذاق اڑانے کا موقع مل گیا۔خاص طور پر بھارت نے فیک اکاو¿نٹس سے فوج کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔جس ملک کی فوج کمزور ہو جائے اسکا دفاع کمزور ہو جاتا ہے ۔ریاست اور ریاستی ادارے کرپٹ بھی ہوں تو ان سے ٹکراو¿ کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے اسے ٹھیک کرنے کے بتدریج کوشش ہی حل ہے۔ ایک سوال آپ پر چھوڑ کر اپنی بات مکمل کروں گا کہ ملک کے کسی ایک ریاستی، قومی ،انتظامی اور سیاسی ادارے کا نام بتائیں جو اپنی آئینی و قانونی حدود و قیود میں رہ کر کام کر رہا ہو؟ ؟؟؟؟ مجھے کافی عرصے سے اس سوال کا جواب منفی یعنی نہیں میں مل رہا ہے۔ پاک فوج کے حاضر سروس افسران کو کیا ضرورت تھی وہ 9 مئی کے سانحہ میں ملوث ہوتے۔کیا یہ اپنے کام کو چھوڑ کر سیاست میں دلچسپی اور مداخلت کاشاخسانہ نہیں ؟ نظام عدل انوکھا ہی ہے۔جو تاحال عوام کی حمایت اور یقین دہانی حاصل نہ کر سکا۔آج ہماری ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے رہنے کی بڑی وجہ اسلام کے سنہری اصول دولت اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم سے دوری ہے۔سوچ بدلیں پاکستان بدلیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین