کس کو اَب اردو زباں کی فکر ہے“

سیّد روح الامین 


کالم سے پہلے شعبہ اردو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ہمارے بہت ہی پیارے بھائی پروفیسر ذیشان تبسّم (ماہر اقبالیات) کی والدہ صاحبہ رحلت فرماگئی تھیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل سے نوازے آمین 
ہم یہ رونا تو ہر وقت روتے رہتے ہیں کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے فرمان اور 1973ءکے آئین کے مطابق حکومت نے 75 سال میں نفاذِ اردو کی طرف توجہ کیوں نہیں دی اور ہم اس میں حق بجانب بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں پر اردو کا نفاذ کِس حد تک کیا ہے؟ کیا ہم روزمرہ کے معاملات زندگی میں اردو زبان کا استعمال کرتے ہیں؟ پہلے تو ہم ایک پنجم جماعت کے سائنس کے 1945ئکے پرچے کا ذکر کرناچاہیں گے۔ عید سے چند دِن قبل محترم و مکرم جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے 1945ئ کاپنجم جماعت کا سائنس کا پرچہ ناچیز کو واٹس ایپ پر بھیجا۔ ناچیز نے اپنے چند احباب کو بھیج دیا۔ ہمارے لیے نایاب اور انمول پرچہ تھا۔ ہمارے دوست گورنمنٹ عبدالحق ڈگری کالج جلالپور جٹاں کے پرنسپل جناب کلیم احسان بٹ نے اسے میرے شکرئیے کے ساتھ فیس بک پر لگا دیا۔ جِسے قارئین نے بے حد پسند کیا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس پرچے کو خوب ایک دوسرے کو بھیجا۔ پانچویں جماعت کا سائنس کا 1945ءکا پرچہ ہے۔ صفائی کے تین نمبر رکھے گئے ہیں۔ سائنس کا پریکٹیکل (عملی) امتحان جو ہمارے ہاں میٹرک کے امتحان کے بعد لیا جاتا ہے۔ بچّوں کے علاوہ اساتذہ کو بھی اس کی ا، ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔ اس میں سفارشی طور پر سب کو پاس کرنا لازم ہوتا ہے۔ 1945ءکے سائنس کے پانچویں جماعت کے پرچے میں آدھا حصہ عملی امتحان پر مشتمل ہے۔ بخدا آج کل کے ایم۔ ایس سی پاس بچّے بھی وہ پانچویں کلاس کا پرچہ پاس نہیں کر سکتے۔ اس سے ہمارے معیار تعلیم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔ 
عید سے ایک روز قبل ہمارے دوست ڈاکٹر زینو نعیم جو کہ کرسچین میموریل اسپتال کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ویسے تو ”دردِ دِل“ کے معالج ہیں۔ مگر اسپتال میں ہر مریض کی خواہش یہ ہی ہوتی ہے کہ صرف انہی کو چیک کرایا جائے۔ ڈاکٹر زینو نعیم بہترین معالج، انتہائی نفیس شخصیت ہونے کے علاوہ سادگی و عاجزی کا پیکر بھی ہیں۔ میں نے انہیں کبھی کِسی مریض کو ڈانٹتے نہیں دیکھا۔ وطن عزیز پاکستان سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں اور اس کی فلاح کے لیے دعاگو رہتے ہیں قومی زبان اردو کے بھی عاشق ہیں۔ انہوں نے ایک پیغام بھیجا۔ ”عوام کے ہر مسائل پر نظر ”روزنامہ لوہے قلم ملتان، فیصل آباد“ نیچے درج تھا ”اردو زبان تھی جس کی، وہ بھی گئی اس قوم کے گھر سے....“اب اس عبارت میں ”مسائل اور لوہے“ دونوں اِملا کی غلطیاں تھیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مثالیں ایسی دی جا سکتی ہیں جن میں اِملا غلط ہوتی ہے۔ 
نہیں داغ آسان یاروں سے کہہ دو 
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے 
 (داغ دہلوی)
اب عید پر ایک دوسرے کو بھیجے گئے پیغامات پر بات کرتے ہیں۔ یقین کریں زیادہ تر احباب انگریزی میں لکھے گئے پیغامات بھیجتے ہیں۔ بخدا میں تو کم از کم نہیں سمجھ پاتا۔ شاید بھیجنے والے خود بھی سمجھنے سے قاصر ہی ہوتے ہیں؟ یہ تو وہ ہی صورت حال ہے کہ سالانہ بجٹ حکومت انگریزی میں صرف اِسی لیے پیش کرتی ہے کہ عوام میں سے کوئی بھی اسے سمجھ ہی نہ سکے۔ 
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بجٹ جو قومی اسمبلی میں پیش کرتا ہے۔ وہ بھی اس سے نابلد ہی ہوتا ہے بس اس نے جیسے تیسے انگریزی میں وہ پیش کر دینا ہوتا ہے اور ساتھ بیٹھے ڈیسک بجاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انگریزی میں کوئی ڈراما پیش کیا جا رہا ہے اور لوگ خوش ہو کر تالیاں بجا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس احساس کمتری سے کب نکلیں گے؟ اردو کا نفاذ ہمیں اپنے گھروں سے کرنا ہو گا ایک دوسرے کو پیغامات اردو میں لکھ کربھیجے جائیں۔ دوکانوں اور ہوٹلوں کے نام اردو میں رکھے جائیں۔ سڑکوں پر بورڈ اردو میں لگائے جائیں۔ بچّوں سے اردو کے ساتھ اپنی مادری زبانیں پنجابی ، سندھی ، بلوچی وغیرہ بھی اپنے اپنے علاقوں کے مطابق بولی جائیں۔ بچّوں کو انگریزی ضرور پڑھائیں مگر اسے صرف انگریزی ہی پڑھنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ دنیا کے ہر ملک کی طرح ہمیں بھی اپنی قومی و سرکاری زبان اردو کو ذاتی طور پر فروغ دینا چاہیے۔ یقین جانیئے کہ ہمارے درسی نصاب کو اگر قومی زبان اردو میں منتقل کر دیا جائے تو حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ لوگ پیدا ہوں۔ جو قومیں اپنی زبانوں کو خود فروغ دینے میں کردار ادا نہیں کرتیں۔ وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر پاتیں۔ چین، جاپان ان سب ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے فرمایا تھا کہ انگریزی کو بھی اردو میں پڑھایا جائے۔ 75 سال سے ہم دوسروں کی زبان پر انحصار کر کے خود کو احساس کمتری میں مبتلا کیئے ہوئے ہیں۔ ایک اہم بات یہ کہ اردو اِملا کی طرف ہمارے ہاں بالکل بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ بس تعلیمی اداروں میں دھڑا دھڑ بھاری فیسوں کے عوض ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔ ہماری تعلیمی پسماندگی کو کوئی روک پائے گا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ جو کہ وطن عزیز میں ہمیشہ رہے گا۔ میرے نزدیک تو قومی زبان اردو کے فروغ و ترویج کے لیے کام کرنا بھی دین اسلام کی خدمت ہے۔ لہٰذا اپنی قومی زبان اردو میں بولنا، لکھنا، سیکھنا یہ سب عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ 
بقول اکبر الٰہ آبادی 
قوم کیسی، کِس کو اب اردو زباں کی فِکر ہے 
غم غلط کرناہے بس اور آب و ناں کی فکر ہے

ای پیپر دی نیشن