صحافت کی دنیا میں جن شخصیتوں نے مجھ پر اپنی عظمت کے گہرے نقوش ثبت کئے ان میں عرفان چغتائی صاحب کا نام بہت نمایا ں ہے۔ میں نے ان کا نام اس وقت س±نا جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جھنگ سے شریک ہونے والے صحافی شعراءسے میرا تعارف ہوا۔ ان سب کی زبانوں پر دو اصحاب کا بہت ذکر ہوتا تھا جن میں ایک بلال زبیری اور دوسرے عرفان چغتائی! عرفان چغتائی جھنگ میں روز نامہ ” نوائے وقت“ کے نمائندہ خصوصی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ”قلندر“ کے نام سے اپناسات روزہ جریدہ بھی شائع کرتے تھے۔ عرفان چغتائی کو زیادہ شہرت اس وقت ملی جب جھنگ کے ایک گاﺅں موچی والا میں پولیس نے مقامی آبادی کو جس میں عورتیں بھی شامل تھیں، بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ عرفان چغتائی نے جب ”نوائے وقت “ کے مدیر جناب حمید نظامی کو اس ر±وح فرسا سانحہ کی ج±زیات سے آگاہ کیا تو نظامی صاحب کو صبر کا یارا نہ رہا۔ انہوں نے سات روزہ ”چٹان“ کے ایڈیٹر اور اپنے گہرے دوست آغا شورش کاشمیری کو ساتھ لیا اور لاہور سے جھنگ روانہ ہوگئے، وہاں سے عرفان صاحب کو ہمراہ لیا اور پہنچ گئے موچی والا ! انہوں نے پولیس کی زیادتیوں سے متاثر ہونے والے لوگوں سے روابط کئے ، ان سے تفصیلات معلوم کیں اور اسی شب واپس لاہور پہنچ کر ایک تفصیلی اور جامع رپورٹ لکھی جو اگلے روز “ نوائے وقت“ میں ایڈیٹر نوائے وقت کی کریڈٹ لائن سے شہہ س±رخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ نظامی صاحب کی مرتب کردہ اس خبر نے پ±ورے ملک میں تہلکہ مچا دیا ، اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ ہی اخباری برادری میں عرفان چغتائی کا نام ایک جرا¿ت مند صحافی کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔
عرفان چغتائی سے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ میں تو میری کوئی ملاقات نہ ہوئی مگر ان کی قیادت میں ص±وبہ بھر کے نامہ نگاروں کی ایک تنظیم تشکیل دی گئی جس کے صدر وہ خود اور قصور کے نامہ نگار خان محمد خان مسحور اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس تنظیم کا منشور جناب عرفان چغتائی نے لکھا۔ یہ منشور کیا تھا .... صحافت میں نامہ نگاروں کے کلیدی رول کے بارے میں پ±ر شکوہ الفاظ کا ایک خوب صورت گل دستہ تھا جس کا ایک فقرہ مجھے بھلائے نہیں بھ±ولتاکہ”ایک اچھے نامہ نگار میں شاہین کا تجسس اور چیتے کا جگر ہونا چاہئے “ میں پہلے سب ایڈیٹر اور پھر سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے روز نامہ آفاق لائل پور میں کام کرنے لگا تو یہاں میری ملاقات جناب عرفان چغتائی سے ہوئی جو روز نامہ ” نوائے وقت“ لائل پور کے سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔
حمید نظامی ان پر بہت اعتماد کرتے تھے اور ان کی رپورٹنگ اور قلمی صلاحیتوں کے بے حد معترف تھے۔ مجھے کئی تقاریب، پریس کانفرنسوں اور سیاسی اجتماعات میں عرفان چغتائی صاحب کی معیت میں شرکت کا موقع ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سے خبر نگاری کے شعبے میں بہت کچھ سیکھا۔ میں ان کے ساتھ سر کاری دفاتر ، نیم سرکاری اداروں اور اہم سماجی شخصیات کے پاس جاتا رہا۔ ان پر لوگوں کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ سر کاری افسر اپنی بعض اہم فائلیں ان کے حوالے کردیتے تھے ، جنہیں وہ اپنے گھر یا دفتر لے جاتے اور ایک دو روز بعد یہ فائلیں انہیں واپس کردیتے۔
یہ عجیب اتفاق ہے جب حمید نظامی صاحب نے لائل پور سے روز نامہ ” نوائے وقت “ کا ایڈیشن بند کرکے ملتان سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور عرفان چغتائی صاحب کو لاہور دفتر ب±لالیا تو لائل پور میں عرفان صاحب کے جانشین کی حیثیت سے میرا تقرر عمل میں آیا، یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ کچھ عرصہ بعد جب میں لاہور دفتر میں ملازمت کے لئے شاہ دین بلڈنگ میں جناب مجید نظامی سے ملاقات کے لئے گیا تو وہاں میری سب سے پہلے ملاقات عرفان صاحب سے ہوئی۔
عرفان صاحب کی شخصیت کا مجھ پر جو اثر رہا، اس کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام عرفان رکھا جو عرفان چغتائی مرحوم سے میری عقیدت وارادت کا مظہر ہے۔ جب مصطفی صادق صاحب اور میں نے لائل پور سے سات روزہ” وفاق “ نکالا جسے بعد میں روز نامہ میں تبدیل کردیا گیا ، اس وقت بھی عرفان چغتائی مصطفی صادق صاحب اور مجھے خطوط لکھ کر ہمارا حوصلہ بڑھا تے رہے اور جب ہم نے مارچ 1965ئ میں لاہور سے روز نامہ ” وفاق“ کا اجراءکیا تو اس کے لئے مختلف شعبوں میں اچھے رفقائے کار کے تقرر میں وہ ہماری مدد کرتے رہے۔ انہوں نے رپورٹنگ کے شعبے میں ایک نوجوان کو ہمارے پاس بھیجا جس کی صلاحیتیں ” ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات “ کے مصداق اپنا لوہا منوارہی تھیں۔ عاشق علی فرخ ان دنوں روز نامہ ”ایکسپریس“ ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں اور انہی خوبیوں کے مالک ہیں جو عرفان چغتائی کا طرئہ امتیاز تھیں۔ افسوس کہ یہ مایہ ناز صحافی 1965ء میں میرے لاہور آنے کے چند ماہ بعد پی آئی اے کی قاہرہ کے لئے افتتاحی پرواز کے المناک سانحہ میں پاکستان کی صحافت اور صحافیوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ” نوائے وقت “ اور اس سے پہلے ان کی زیر ادارت شائع ہونے والے جریدہ ” قلندر“ میں ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں مرتب نہ کیا جا سکا۔ یہ کام ان کے شاگرد رشید خالد کاشمیری کرسکتے تھے مگر نامعلوم کیوں وہ اس سعادت کے حصول سے محروم رہے اور اس طرح عرفان چغتائی کی گراں مایہ نگار شات” نوائے وقت “ اور ”قلندر“ کی فائلوں میں گم ہو کر رہ گئیں۔