آج ملک کی تینوں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی تین سیاسی شخصیات کے بیانات آپ کے سامنے رکھے جائیں گے اور ان بیانات، حالات و واقعات پر بات ہو گی۔ ویسے ان تینوں میں سے ایک سیاسی شخصیت کی سیاسی جماعت کا طے ہونا باقی ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ شخصیت فواد چوہدری ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ فواد پاکستان تحریک انصاف میں واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں جب کہ اس معاملے میں انہیں پی ٹی آئی کے اندر سے مخالفت کا سامنا ہے۔ سیاسی حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر فواد چوہدری فیصل واوڈا بننا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں۔ اگر کسی کو فواد چوہدری کے بارے کوئی غلط فہمی تو وہ دور ہو جانی چاہیے وہ کس سیاسی سوچ کے حامل ہیں۔ وہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہونے والی اپڈیٹس کو بھی کسی اور کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ فواد چوہدری پی ٹی آئی میں واپس آنا چاہتے ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی نے پارٹی چھوڑنے والوں کی جماعت میں واپسی روک دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بانی کی ہدایت پر شاہ محمود قریشی کی رہنمائی میں سات رکنی کمیٹی پارٹی چھوڑنے والے رہنماؤں کی واپسی کا فیصلہ کرے گی۔ کمیٹی میں اسد قیصر، حامد خان، شہریار آفریدی،بیرسٹر گوہر، شاندانہ گلزار اور شبلی فراز شامل ہوں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والوں میں سے کوئی بھی اس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہیں ہو گی۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ جب تک عمران خان رہا نہیں ہوتے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ سوچ بھی اتنی مناسب نہیں ہے کیونکہ سیاست دانوں یا حکمرانوں پر بننے والے مقدمات کا انہیں سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بالخصوص نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد تو قومی مجرم ہیں اور ایسے افراد کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا ملک کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہے۔ جہاں تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا تعلق ہے تو فواد چوہدری کہتے ہیں کہ "پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا امکان نہیں۔
قیادت کی سیاسی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ہم کچلے جا رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ برا وقت ختم ہو گیا ہے تو ہم نے بولنا شروع کر دیا۔ مشکل وقت بانی پی ٹی آئی اور ہمارے لیے تو ختم نہیں ہوا، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری جیلوں میں ہیں ان پر اب بھی مشکل وقت ہے۔"
فواد چوہدری کے لیے یہ مشکل ہے کہ نمایاں نہ ہوں اور زندگی گذارتے رہیں۔ بات مشکل وقت کے خاتمے کی نہیں ہے۔ کیا یہ لوگ جیلوں سے باہر آئیں تو کیا مشکل وقت ختم ہو جائے گا۔ یعنی سیاسی اشرافیہ جیل میں ہو تو ملک مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ یہ سوچ بھی سوالیہ نشان ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے کروڑوں شہریوں کی مشکلات میں تو اضافہ ہی ہوا ہے۔ فواد چوہدری اگر آزاد فضاؤں میں ہیں تو انہیں بہتر گفتگو اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے سیاسی جماعتوں کو سیاسی کارکنوں کے لیے دروازے بند نہیں کرنے چاہیں۔ چھوڑ جانے والوں کے لیے سخت پالیسی ضرور بنانی چاہیے لیکن حالات و واقعات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ ریاست مخالف بیانیے کا ساتھ کسی کو نہیں دینا چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی ان دنوں سیاسی کھیل میں مرضی کا حصہ نہ ملنے کی وجہ سے برہم دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا ایک وقت میں پی ڈی ایم کے سربراہ تھے۔ انہیں امید تھی کہ عام انتخابات کے بعد وہ کسی اہم عہدے پر ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور اب انہیں ہر وقت سب کچھ برا لگتا ہے۔ اب مولانا نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری نہیں آ رہی، مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ امن و امان میں ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے لیے افغانستان میں آپریشن کی باتیں ہوتی ہیں۔ بصد احترام پوچھنا چاہتا ہوں کہ رواں سال ہونے والے انتخابات کے بعد کیا استحکام آیا ہے۔ اگر بیرونی سرمایہ کاری میں مسائل ہیں تو سیاسی قیادت ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کتنی سنجیدہ ہے، کیا ایسے ماحول میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کام کرنا آسان ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو کیا مولانا نہیں جانتے کہ سرحد پار سے پاکستان کے امن و امان کو خراب کرنے کے لیے کیا حرکتیں ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں کہیں تو ملک و قوم کے لیے بہتر بات کریں۔
مولانا فرماتے ہیں "سٹیبلشمنٹ اور خفیہ ادارے انتخابات سے دور رہیں، کوئی مداخلت نہ کریں جبکہ ہم بصد احترام سمجھتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں یکسوئی کی کمی ہے۔ انتخابی نتائج کسی قیمت پر ہمیں قبول نہیں، انتخابات میں سٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔"
مولانا ایک ہی سال میں دوسری مرتبہ عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر مرتبہ عام انتخابات کے بعد ملکی مسائل میں اضافہ ہوا اور عام آدمی کی زندگی مشکل تر ہوتی گئی۔ اگر مولانا کو سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول دکھائی نہیں دیتا تو انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس ماحول کو سازگار بنانے کے لیے جو کام ان کے ذمے ہے کیا وہ کر رہے ہیں۔ امن و امان سب سے اہم مسئلہ ہے اور اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو اور مسلسل استعمال ہوتی رہے تو کیا پاکستان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے۔ پاکستان کو بھی تو پائیدار امن کے لیے اقدامات کرنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو افغانستان کی فکر لاحق ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں بہنے والا خون انہیں کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔ سو مولانا کو پہلے یہ طے کر لینا چاہیے کہ ان کی سیاست کا مرکز و محور بہتر پاکستان ہے یا پھر ان کی سیاست صرف سیاسی و ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ میں جمعیت علماء اسلام کا مخصوص سیٹوں کے معاملے میں موقف اور ہے جب کی مولانا کی پریس کانفرنس اس سے مختلف ہے۔
مولانا کے ری الیکشن مطالبے پر وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہتے ہیں کہ "انتخابات دو ہزار انتیس میں ہوں گے۔حکومت کے بہتر معاشی اقدامات کو سراہیں جن کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج تاریخی بلندی پر ہے
زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، تجارتی خسارہ کم اور روپے کی قدر مستحکم ہورہی ہے۔" تارڑ صاحب ٹھیک فرما رہے ہیں ان کے اعشاریے ٹھیک ہوں گے لیکن وقت ملے تو حلقے میں چکر ضرور لگائیں، اپنے ووٹرز سے ملیں اور پوچھیں کہ زندگی کیسے گذر رہی ہے۔
آخر میں قابل اجمیری کا کلام
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے