گورنر اٹک کا اور اٹک زندہ باد


تحریر انور خان لودھی 
ایک چھوٹے شہر کے رقبے کے مساوی پھیلاو¿ والے بڑے گھر یعنی گورنر ہاو¿س لاہور میں اٹک سے تعلق رکھنے والے سردار سلیم حیدر خاں لاٹ صاحب بن کر متمکن ہیں۔ تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ ان کے سر پر گورنری کی پگ باندھنے کے پس منظر میں ایک سبب ان کا جیالا ہونا اور دوسرا اٹک کا ہونا ہے۔ سیاسی طاقت میں کس کو کیا ملے گا۔ یہ فارمولہ طے کرکے ہی پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے بادشاہ گر کو لبیک کہا۔ فارمولے کے تحت صدر مملکت، چییرمین سینیٹ اور کے پی کے اور پنجاب کی گورنری پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔ وفاق اور صوبے میں روائت رہی ہے کہ بڑے عہدوں پر تعیناتیاں کرتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ شخصیت کا تعلق کہاں سے ہے۔ مثال کے طور پر اگر صدر سندھ یا پنجاب سے ہے تو چیئرمین سینیٹ بلوچستان یا کے پی کے سے چننے جو ترجیح دی جاتی ہے۔ اب جنوبی پنجاب سے پیلپز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی چئیرمین سینیٹ ہو گئے تو گورنر پنجاب وسطی پنجاب سے لیا جانا تھا یا اپر/شمالی پنجاب سے. چنانچہ اس مقصد کیلئے سردار سلیم حیدر کا اٹک زندہ باد ٹھہرا۔ گورنر بنے تو علاقے کے مکین مسرور نظر آئے۔ حلف برداری کا وقت آیا تو پیلپز پارٹی کے جیالوں اور اٹک کے باسیوں کیلئے تقریب گورنر ہاو¿س کے لان میں رکھنا پڑی۔ چھوٹے سے ہال میں اتنے "محبان سلیم حیدر اور فدایان بھٹو" کو سمونا ممکن نہ تھا۔ راقم بھی اس تقریب میں موجود تھا۔ ہندکو بولتے اہل اٹک واقعی شاداں نظر آئے۔ گورنر اگرچہ ایک آئینی اور محدود اختیارات کے باعث علامتی عہدہ ہے لیکن پھر بھی کافی کچھ کر سکتا ہے۔ سمریاں ہی روکنے پر آ جائے تو صوبے کی حکومت کو تھکا کر رکھ دیتا ہے۔ یونیورسٹیوں کا چانسلر ہونے کی وجہ سے وہ بابائے جامعات ہوتا ہے اور بابا اگر زیرک ہو تو یونیورسٹیوں کی حالت بہتر اور قابل رشک بنا سکتا ہے۔ سردار سلیم حیدر خان سیاسی کارکن سے گورنری تک پہنچے ہیں، معاملہ فہم اور کم گو ہیں۔ ممکن ہے ابھی بہت سے داو¿ پیچ سیکھ رہے ہوں البتہ یونیورسٹیوں کے معاملے میں وہ پونے دو ماہ میں کافی کچھ جان چکے ہیں۔ یونیورسٹی کی کسی علاقے اور ریاست کیلیے اہمیت سے بھی شناسائی حاصل کر چکے ہیں۔ اسی بنا پر گورنر صاحب شدت سے خواہاں ہیں کہ ان کے علاقے اٹک میں نامور یونیورسٹیاں اپنے کیمپس کھولیں۔ یونیورسٹیوں سے اہل اٹک مستفید ہوں گے، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ہوں گےتو اٹک کا سلیم حیدر خوش ہوگا۔ اسی خواہش کو دل میں لئے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے گورنر ہاو¿س لاہور میں ضلع اٹک کی فتح جنگ سمیت مختلف تحصیلوں میں پنجاب یونیورسٹی ,ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی اور یونیورسٹی آ ف انجینئرنگ ٹیکسلا کے سب کیمپسز قائم کرنے کے حوالے سے جائزہ اجلاس بلایا۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جائزہ لیا گیا کہ اٹک میں مذکورہ یونیورسٹیوں کے سب کیمپسز بنانے کے امکانات اور محسن و مصائب کی جانچ کی گئی۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ بطور چانسلر پنجاب بھر کی جامعات میں گڈگورننس اور اعلی تعلیم کا فروغ ان کی ترجیحات ہیں۔ دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں اعلی تعلیم کی سہولیات مہیا کرنے سے ملک ترقی کرے گا۔ گورنر پنجاب نے تینوں جامعات کے وائس چانسلرز کو ہدایت کی کہ متعلقہ یونیورسٹیوں کے سب کیمپسز کو جلد از جلد قائم کیا جائے تاکہ وہاں کے لوگوں کی مشکلات کم ہوں۔ اجلاس میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، وائس چانسلر ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی، ڈاکٹر ایم نعیم، ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ ایگریکلچر ، کیپٹن )ر( وقاص رشید، وائس چانسلر یو ای ٹی ٹیکسلا پروفیسر ڈاکٹر قیصر الزماں، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر کیپٹن )ر(ثاقب ظفر، سپیشل سیکرٹری یونیورسٹیز عبدالرحمن شاہ، ایڈیشنل سیکرٹری طارق محمود اور ڈپٹی سیکرٹری نوشین سرور موجود تھے۔ اٹک زندہ باد کے ہم بھی حق میں ہیں لیکن گورنر صاحب کو یہ مشورہ بھی دینا ہے کہ سب کیمپس کے معیار پر کڑی نظر رکھنی چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے یونیورسٹیوں کے سب کیمپسز کو ختم کرنے کا وژن پیش کیا تھا اور ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ سب کیمپسز کی جگہ نئی یونیورسٹیاں بنانے کی حمائت میں گذشتہ حکومت کا کہنا تھا کہ سب کیمپسز میں مین کیمپس ایسا معیار نہیں ہوتا جس سے تعلیم کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے اس کی جگہ نئی یونیورسٹی کا قیام زیادہ سودمند سمجھا گیا۔ 
بزدار حکومت میں پنجاب میں سرکاری جامعات کے سب کیمپسز کے لئے نئے رولز وضع کئے گئے جس کے تحت متعلقہ ڈویڑن سے باہر سب کیمپس بنانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کا جھنگ میں موجود سب کیمپس یونیورسٹی ا?ف جھنگ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا
 ہائر ایجوکیشن کے اعلی حکام کا موقف تھا کہ اتنی دور سے سب کیمپس اپریٹ کرنے سے انتظامی اور مالی مسائل موجود رہتے ہیں۔ کچھ سال قبل نجی جامعات بھی چھوٹے اضلاع میں اپنے کیمپس قائم کرنے میں مصروف رہیں۔ ان کے معائے کیلئے کمیٹی بنی، کوالٹی آڈٹ ہوا تو سات نجی یونیورسٹیوں کے 21 سب کیمپسز بند کرنے کے احکامات جاری ہوا۔ نجی یونیورسٹیوں نے اس پر ایکا کیا۔ اس وقت کے گورنر چودھری محمد سرور کے پاس جا کر واویلا کیا۔ کچھ معملات آن دی ریکارڈ اور کچھ اف دی ریکارڈ طے کئے گئے اور سب کیمپسز کی بندش کا پروانہ ختم ہوا۔ اس معاملے کی تفصیل میں جانے کیلئے الگ کالم درکار ہے، چلیں پھر کبھی اس طلسم ہوش ربا پر قلم زدگی ہوگی۔ اب اگر اٹک میں سب کیمپسز بنانا موجودہ گورنر کو احسن قدم لگ رہا ہے تو سب کیمپسز میں معیار بھی دینا ہوگا۔ معیار کے بغیر اٹک زندہ باد کا نعرہ پھیکا پھیکا لگے گا۔ 
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں 
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے

ای پیپر دی نیشن