پاکستان آئی ایم ایف کے چُنگل میں۔۔۔۔

ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ        
یہ پہلاخود کش بجٹ ہے جس کے بعد اتنی خودکشیاں، قتل، اغواءاور وارداتیں ہو نگی کہ پاکستان کرائم کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آجائے گا۔ مسائل اور مصائب کے لحا ظ سے بھی پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ کرپشن میں بھی پاکستان کو امتیاز حا صل ہے اب ٹیکس دینے کے لحا ظ سے بھی پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں قدم قدم پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ دنیا کے200 ممالک میںسے 70ممالک ویلفئیر سٹیٹس ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے سے ایکدن بعد آزاد ہونے والا بھارت بھی اس وقت ویلفئیر سٹیٹ کا درجہ حا صل کر چکا ہے۔ بھارت میں ہر شخص کو اُسکے تجربے، تعلیم اور استعداد کے مطابق ہر قسم کے مواقع اور روزگار میسر ہےں۔ اس وقت بھارت چین اور جاپان میں امیر ترین افراد کی فہرست سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں میں ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی ہر شخص کو روزگار کے مساوی مواقع میسر ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھو ٹان، سری لنکا اور افغانستان جیسے ممالک میں پانی بجلی گیس پٹرول آٹا چینی سہولت اور سستا دستیاب ہیں۔ چیزوں کے نرخ کم ہیں بلکہ ان میں سے تین ممالک میں دو سو یونٹ تک بجلی فری ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی مثالی ہے۔ کسی کو مظا ہرے نہیں کرنے پڑتے۔ نہ ہڑتالیں ہو تیں نہ جلسے جلوس نکلتے۔ جہاں امن سکون انصاف علاج معالجہ اور مساوات ہو۔ وہاں احتجاج نہیں ہوتے۔ ماضی کا پاکستان خوشحال، خودمختار اور امن سکون والا تھا لیکن کئی دہا ئیوں سے پاکستانی بُری طرح پِس رہے ہیں۔ اُنکے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں۔ خا ص طور پر جب سے امریکہ نے پاکستان کو ڈالرزشروع کئے ہیں اور پاکستان کو قرضوں کی لت پڑی ہے تب سے پاکستان صرف تنزلی کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے منحوس قدم پڑتے ہی پاکستان سے خیر و برکت ختم ہو گئی ہے۔ ہر چیز بیچی جا رہی ہے یا گروی رکھی جا رہی ہے۔ آخر پاکستانی پہلے بھی تو خو شحال اور پُر سکون زندگی گزار رہے تھے لیکن جب سے آئی ایم ایف کا ٹنٹنا شروع ہوا ہے تب سے پاکستان پر عذاب نازل ہو گئے ہیں۔ جن پاکستانیوں کی ٹکے کی آمدن نہیں ہے۔ اُن پر بھی ٹیکس لگا کر انھیں خو د کشی کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسا آزاد اور ایٹمی ملک ہے جس کا بجٹ بھی آئی ایم ایف بناتا ہے۔ اب تو وزیر خزانہ نے اعتراف کر لیا ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے۔ جس طرح سے فلسطین کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اور رات دن فلسطین میں بم اور میزائل دا غے جا رہے ہیں۔ کہنے کو اقوام متحدہ موجود ہے لیکن رسمی کاروائیاں اور امریکہ جو انسانی حقوق کا چمپئین بنتا ہے۔ کیا وہ اندھا گو نگا بہرہ ہے۔ ساری مسلم امُہ بھنگ پی کر سو رہی ہے۔ او آئی سی کو سانپ سونگھے بیٹھا ہے۔ چا لیس طاقتور اسلامی ممالک تماشہ دیکھ رہے ہیں چلو 17اسلامی ممالک کمزور ہیں مگرکسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اسرائیل چا لاکی سے شام یمن لبنان پر بھی حملے کر رہا ہے اورکوشش میں ہے کہ ایران اور مصر کو بھی اس جنگ میں جھونک دے۔ افغانستان عراق کو تو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے۔ اب پاکستان کی باری ہے۔ کسی کو تباہ برباد کرنے کے کئی طریقے ہیں جن میں سے معیشت کی تباہی سب سے مہذبانہ طریقہ ہے کہ لوگوں پر زندگی تنگ کر دی جائے۔ وہ اپنی ضروریاتِ زندگی کیے لےے بھی فقیروں کی طرح ہاتھ پھیلائیں اور گڑ گڑائیں یا پھر چوری ڈکیتی اغواءقتل کریں۔ یہ نہ کرسکیں توبے بسی سے خودکشی کر لیں۔ میں نے کئی بار چند سوال اٹھائیں ہیں جن کا کبھی جواب نہیں ملا مثلاً یہ کے اتنا ریونیو اکھٹا ہو تا ہے کہ ہم دو تین غریب ریاستوں کر پال سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹول ٹیکس سے کھربوں روپیہ جنریٹ ہوتا ہے۔ صرف رہا ئشی علاقوں اور کمرشل علاقوں پر جتنے ٹیکس لگا ئے جاتے ہیں۔ صرف اُنھی سے امورِ مملکت بخوبی چل سکتے ہیں۔ واپڈا کے بلوںکی مد میں جو سترہ اٹھارہ قسم کے ناروا اور ناجائز ٹیکس ادا کیے جاتے ہیں۔ پھر صرف بجلی پر چھ گنا زا ئد رقم ادا کی جاتی ہے۔ پورے ملک کو صرف بجلی کے ٹیکسوں سے چلایا جا سکتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ سال میں بجٹ ایک بار بنتا ہے لیکن بجلی کے نرخ ہر ماہ بڑھائے جاتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت بھی ہر پندہ دن بعد بڑھا دی جاتی ہے۔ پورے ملک میں بجلی پانی گیس پٹرول اشیا ئے خود و نوش کا بحران ہے۔ ملک میں بجلی سولہ گھنٹے اور گیس اٹھارہ گھنٹے نہیں آتی۔ مگر چار پانچ گھنٹے بجلی کے استعمال پر بل ہزاروں لاکھوں میں آ رہے ہیں۔ تنخواہوں میں پچیس فیصد اور پینشن میں پندرہ فیصد اضافہ کر کے عوام کو مارنے کا پروگرام بنا لیا گیا ہے۔ ماہر معاشیات کو چھوڑیں ، ایک عام ان پڑھ آدمی بھی جانتا ہے کہ اگر اُسکی آمدنی پینتیس ہزار ہے اور اُسے پچیس ہزار کے ٹیکس بھرنے ہیں تو وہ دس ہزار میں کیا زہر خریدے گا۔ آئی ایم ایف نے پورے پاکستان کو ٹیکسوںمیں جکڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کا بہی خواہ ہے تو رات دن غریب عوام پر تشدد کیوں؟ مہنگائی عوام پر کیوں مسلط کی جارہی ہے۔ اشرافیہ پر ایک بھی ٹیکس نہیں۔ حکومت کو وزیر مشیر اور سیکریٹری کم کرنے کو ایک باربھی نہیں کہا۔ ان پانچ چھ ہزار افراد کی مرا عات اور عیاشیاں ختم ہو نے کو نہیں۔ کھربوں روپے کی بجلی پانی گیس پٹرول رہا ئشیں ختم کرنے کے لیے نہیں کہا۔انکے غیر ملکی دورے، ہوٹلوں اور عیاشیوں پر پابندی نہیں لگائی۔ الاﺅنسز اوردیگر مرا عات بند نہیں کروائیں۔ انکے گھروں کی تز ئین و آرا ئیش، ملازمین اور دیگر مد میں فنڈز بند نہیں کرائے۔ بس سارا زور پینشن بند کرانے پر ہے تا کہ لاکھوں پینشنرز بھوکے مر جائیںجنھوں نے زندگی بھر خدمات انجام دیں۔ بڑھاپے میں پینشن کے نام پر انھیں رات دن ٹینشن دی جارہی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کا جینا حرام کر دیا گیا ہے، کیا آئی ایم ایف نے وزیر اعظم کو یہ نہیں کہا کہ تم ارب پتی ہے۔ تنخواہ نہ لو۔ وزیر خزانہ سے نہیں کہا کہ تمھاری تعلیم اور بساط سترھویں گریڈ جتنی ہے۔ تم بس ایک لاکھ لیا کرو۔ اگر اس ملک میں اوسطاً آمدن چا لیس ہزار ہے تو تمام وزیروں مشیروں، بیوروکریٹس کی تنخواہ پچاس ہزارہونی چا ہیے۔ آئی ایم ایف کروڑوں ڈالرز کا جو قرضہ ہر تیسرے ماہ دیتا ہے ۔ لینے والوں سے یہ کیوں نہیں پو چھتا کہ تم یہ پیسہ کہاں اُڑا رہے ہو۔ کون سی ڈائن پال رکھی ہے جو کروڑوں ڈالر کھا جاتی ہے؟ ہر سال ملنے والا اربوں ڈالرز کس پر، کس طرح اور کس لیے خرچ ہو تا ہے؟آئی ایم ایف آڈٹ کیو ں نہیں کرواتا؟ترقیا تی فنڈز جو اربوں کھربو ں میں رکھے جاتے ہیں۔ وہ ترقی نظر کیوں نہیں آتی؟ ملک تو ویران جنگل بنتا جا رہا ہے۔ ہر پاکستانی مقروض اور غریب سے غریب تر ہو تا جا رہا ہے تو ےہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ آئی ایم ایف اشرافیہ پر پابندی نہیں لگا تی۔ مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مکمل طو ر پر مفلوج اور اپاہج بنا دیا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کا ہمدرد نہیں بلکہ آستین میں چُھپا ہوا موذی سانپ ہے جس نے پاکستان کو معذور اور کنگال کر دیا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن